| تحریر: عمر رشید |
کیا طلبہ کو سیاست میں حصہ لینا چاہئے؟
آج کمرہ جماعت سے لے کر پارلیمنٹ تک اور خاندانی مجلس سے لے کر بازاری میڈیا کے کسی پروگرام میں اول تو اس سوال پر بحث ہی نہیں کی جاتی، اگر شاذونادر کوئی آزاد خیال یا جمہوریت کا خیر خواہ اس سوال پر بات چیت کرنا مناسب سمجھے بھی تو متفقہ طور پر ایک ہی رائے دی جاتی ہے کہ طلبہ کو سیاست سے دور رہنا چاہئے۔ اپنی تعلیم حاصل کرنی چاہئے، یہ سیاست بڑے لوگوں کا مشغلہ ہے۔ آج اس ملک میں جو سیاست دکھائی اور کی جا رہی ہے وہ سیاست نہیں بلکہ کاروبار ہے، دھندہ ہے، جرم ہے، لوٹ مار ہے، قتل وغارت ہے، بدمعاشی اور غنڈہ گردی ہے۔ نظریات کے بغیر سیاست جرم بن جایا کرتی ہے۔ آج سب سیاسی قائدین مجرم ہیں اور پارلیمنٹ سمیت دوسرے ریاستی ادارے سارے جرائم کی آماجگاہ ہیں۔ حقیقی سیاست اپنے اردگرد ہونے والے ظلم و ستم اور ناانصافی کے بارے میں سوچنا، اس جبر اور وحشت کیخلاف نظریاتی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہوئے کُچلے ہوئے طبقات کو منظم اور متحد کرنے کیلئے ایک ناقابل مصالحت جدوجہد کا نام ہے۔ طلبہ کو کسی بھی معاشرے کا باشعور حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن آج طلبہ کو یہ تعلیمی ادارے باشعور نہیں بلکہ جاہل اور تربیت یافتہ غلام بنا رہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ غلام بھی ایسے کہ جو تعلیمی اخراجات کی رسیدیں (ڈگریاں) بغل میں لئے بے یارو مددگار دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ تقریباً 12 ہزار سال پرانے طبقاتی معاشرے کی تاریخ میں ایسے غلام نہیں دیکھے گئے جن کے پاس کام بھی نہیں ہے!
اگر اٹھارہ سال کی عمر میں یہ ریاست ایک نوجوان کو شناختی کارڈ بناکر دے سکتی ہے، ووٹ ڈالنے کا حق دے سکتی ہے تو پھر اسے اپنے مسائل پر یا حقوق پر سوچنے، بولنے، منظم ہونے اور آواز اٹھانے کا حق کیوں نہیں دیتی؟ تعلیم کو ایک منافع بخش کاروبار میں بدل دیا گیا ہے، چند مٹھی بھر سرکاری تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ کو جو دیگر مسائل درپیش ہیں انہیں حل کرنے کے لئے طلبہ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا وہ چپ چاپ اس کھلواڑ کو برداشت کرتے رہیں؟ اگر طلبہ اپنے حقوق کے لئے آواز بھی اٹھائیں تو وہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی بنا کر یونیورسٹیوں سے بے دخل کر کے عبرت کا نشان بنا دئیے جاتے ہیں۔ طلبہ کو سوچنا ہو گا، حل نکالنا ہو گا۔ حقوق کا دفاع کرنااور غصب کئے گئے حقوق کی لڑائی طلبہ کا قانونی، آئینی اور سماجی حق ہے۔ اسے یہ ظالم حکمران سیاست کا نام دیںیا غیر قانونی سمجھیں ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ اگر سوال کرنا جرم ہے، اگر اپنے خوشحال مستقبل کیلئے جدوجہد کرنا جرم ہے تو اس جرم کا ارتکاب ہی ایک باشعور نوجوان کی علامت ہے۔ آہ و بکا کرنے سے، آنکھیں بند کرنے سے، ظلم سہنے سے، ظالم طاقتور اور مزید سنگدل ہوتا ہے۔ اُس کے کوڑے زیادہ شدت سے برستے ہیں۔ ہمیں بیدار ہونا ہو گا، لڑنا ہوگا، ہر مظلوم کی للکار بنناہو گا۔ مزید سونا موت ہے۔ انقلابی نظریات کی تلاش اور اُن کا حصول ہماری زندگیوں کا اولین مقصد ہونا چاہئے تاکہ ہم ایک ایسی انقلابی سیاست کا آغاز کر سکیں جو اس بند گلی میں پھنسے معاشرے کو راہِ نجات دے۔
طلبہ سیاست کا روشن ماضی
برصغیر جنوبی ایشیا میں پچھلی صدی میں چلنے والی جدوجہد آزادی میں بھی طلبہ نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک کی شدت اور وسعت سب سے پہلے 1919ء میں ابھری جس کے پیچھے امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے حکم پر بڑے پیمانے کا قتلِ عام تھا۔ اس تحریک میں مزید شدت اس وقت آئی جب لاہور میں جلوس پر برطانوی سامراجیوں کے لاٹھی چارج میں زخمی ہونے والے کسان راہنما لالہ لجپت رائے کا 17 نومبر 1928ء کو انتقال ہوا۔ اس سے مشتعل ہو کر طلبہ کا ایک بڑا حصہ سامراج کے خلاف بغاوت کا حصہ بنا۔ طلبہ اور نوجوانوں کی اس تحریک نے جلد ہی مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکیا اور یہ جس تنظیم میں زیادہ متحرک ہوئے وہ HSRA (ہندوستان سوشلسٹ انقلابی فوج) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اس کی قیادت بھگت سنگھ، سُکھ دیو، بی کے دت، راج گُرو اور دوسرے کالج کے طالب علم کر رہے تھے۔ 8 اپریل 1929ء کو لاہور میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس جان پائینز سونڈرز (John Poyants Saunders) کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس دوران بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیااور ان پر مقدمہ قتل شروع ہوا۔
1927ء سے 1929ء کا دور پھر پورے برصغیر میں ایک انقلابی ابھار کا دور تھا۔ اس لیے اس مقدمے کے دوران بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے عدالت میں دئیے گئے بیانات اور دلائل، جو بہت ہی ریڈیکل اور انقلابی تھے، سے تحریک کو مزید شکتی اور جرات ملی جس سے انگریز سامراج گھبرا گیا۔ ان کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ براہ راست سامراجی اور ریاستی جبر سے تحریک رُکے گی نہیں اس لیے انہوں نے ہندوستان کے مقامی بالادست طبقات کے لیڈروں کو ابھارا، ان کو استعمال کیا اور ان سے معاہدے کر کے تحریک کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ اسی دوران بھگت سنگھ، جیل میں مارکسزم پر سٹڈی سرکلز اور اپنی عملی جدوجہد کے تجربات سے اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ مسلح جدوجہد کی بجائے ان کو محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ایک انقلاب کا راستہ اختیارکرنا چاہئے تھا۔ بھگت سنگھ نے یہاں تک کہا کہ سوشلسٹ انقلاب کے بغیر کوئی آزادی نہیں ہوتی۔ اگر برطانوی سامراج چلابھی جائے تو ہم ایسی آزادی کو نہیں مانیں گے جس میں سرمایہ دار ی اور جاگیرداری کو سوشلزم کے ذریعے اکھاڑ پھینکا نہ گیا ہو۔ اس ریڈیکلائزیشن کو روکنے کے لیے 5 مارچ 1931ء کو گاندھی اور برطانوی وائسرائے لارڈ ارون کے درمیان ایک سمجھوتا ہوا اور 23 مارچ 1931ء کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو لاہور سنٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
ہندوستان اور پاکستان میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں موجودہ حکومتوں اور پارٹیوں کو ہی جدوجہد آزادی کی تحریک پر غالب گردانا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک قومی آزادی کی تحریک میں کمیونسٹ پارٹی کا بہت بڑا ثر تھااور اسکی حمایت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ 1939ء کے کراچی کے اجلاس میں کانگریس کی صدارت کے لیے ہونے والے انتخابات میں بائیں بازو کے امیدوار ڈاکٹر سبھاش چندر بوس نے مہاتما گاندھی کو شکست دے دی تھی۔ اس سارے عرصے میں طلبہ تحریک میں بائیں بازو کے رجحانات حاوی تھے۔ مسلم لیگ اور کانگریس کے جدوجہد آزادی پر حاوی ہونے کی جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ اس جدوجہدِ آزادی میں بائیں بازو کے رجحانات کے کردار سے بعد کی نسلوں کو بے بہرہ رکھنے کی کوشش ہے۔
کانگریس اور مسلم لیگ اس وقت حاوی ہونا شروع ہوئیں جب 1943ء میں یالٹا میں چرچل، سٹالن اور روز ویلٹ کے درمیان سمجھوتے کے تحت کمیونسٹ پارٹیوں کو دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ اور امریکہ کا حلیف بنانے پر ماسکو کی سٹالنسٹ افسر شاہی نے مجبور کیا۔ ہندوستان میں ایک طرف گاندھی، نہرو اور دوسرے بالا دست طبقات کے لیڈروں کو کبھی گرفتار اور کبھی رہا کر کے انگریز اپنے سامراجی میڈیا اور دوسرے ذرائع سے ’’لیڈر‘‘ بنارہے تھے جبکہ دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی قیادت نے برطانوی سامراج سے مصالحت کر کے جدوجہدِ آزادی کو ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے نمائندہ لیڈروں کے حوالے کر دیا تھا۔ اس سے طلبہ اور نوجوانوں میں بڑے پیمانے پر بددلی پیدا ہوئی۔ بعد میں حکمران طبقات کے گماشتہ اور بہت سے رجعتی لیڈر ایسے ابھرے جو 1943ء سے پیشتر کمیونسٹ پارٹی کی طلبہ اور نوجوان تنظیموں میں تھے۔ مثلاً اٹل بہاری باجپائی 1941ء میں کمیونسٹ پارٹی کے طلبہ ونگ میں متحرک تھے۔
جدوجہدِ آزادی کا ایک اور اہم سنگِ میل 1946ء کی جہازیوں کی بغاوت تھی جس نے بڑی انقلابی تحریک کو جنم دیا تھا۔ برصغیر میں کراچی سے لے کر مدراس تک بیشتر شہروں میں اس بغاوت میں ریلوے، ٹیکسٹائل، ٹرانسپورٹ اور دوسرے شعبوں کے مزدوروں نے عام ہڑتال کر کے پورے برصغیر کو جام کر دیا تھا۔ اس انقلابی صورتحال میں طلبہ اور نوجوانوں کی تحریک کا ایک فیصلہ کُن ہاتھ تھا۔ لیکن اس ہڑتال کو شکست دینے اور جہازیوں کی بغاوت کو کچلنے میں پھر مسلم لیگ، کانگریس اور دوسری مذہبی اور لبرل بورژوا پارٹیوں نے برطانوی سامراج کی مکمل حمایت کی تھی۔ دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی نے قوم کی تشکیل میں مذہب کے عنصر کے فرسودہ سٹالنسٹ نظریے کو قبول کر لیا تھا۔ گو اس فیصلے سے کمیونسٹ پارٹی کے اندر بہت بڑی نظریاتی بغاوت ہوئی لیکن صرف سامراج سے ’’وقتی مصالحت‘‘ کے ایک فیصلے سے اس کی کئی دہائیوں کی محنت سے حاصل کردہ حمایت اور ساکھ ٹوٹ چکی تھی۔ یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹی نے ہندو اور مسلمان ممبران کو کانگریس اور مسلم لیگ میں کام کرنے کے احکامات صادر کیے جو ایک نظریاتی جرم تھا۔ دانیال لطیفی، جو کمیونسٹ پارٹی کا ایک طالب علم راہنما اور دانشور تھا، نے مسلم لیگ کا 1946ء کے انتخابات کے لیے منشور لکھاتھا۔ یہ ایک واقعہ ماسکو کے احکامات کے تحت کمیونسٹ پارٹی کے نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی دیوالیہ پن کو بالکل واضح کر دیتا ہے۔ برصغیر کا بٹوارہ ایک انتہائی رد انقلابی قدم تھا جس میں لاکھوں جانیں گئیں اور طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کی انقلابی تحریکوں پر ایک کاری ضرب لگی، انقلابی سوشلزم کے نظریات کئی دہائیوں کے لئے پسپا ہوگئے۔
اس پس منظر میں قیام پاکستان کے بعد فوری طور پر کوئی بڑی انقلابی تحریک نہیں ابھری بلکہ رجعتی نظریات حاوی ہو گئے۔ پاکستان بننے کے بعد مذہبی بنیادوں پر احمدیوں کے خلاف تحریک میں طلبہ کی کچھ پسماندہ یا درمیانے طبقے کی پرتیں ملتی ہیں۔ یا پھر 1956ء کی دہائی میں بنگلہ زبان کے مسئلہ پر قومی بنیادوں پر تحریک میں طلبہ کی شرکت ملتی ہے۔ لیکن اس دوران بائیں بازو کے طالب علموں نے ڈی ایس ایف (ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن) اور این ایس ایف (نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن) کے گرد متحرک اور منظم ہونا شروع کر دیا تھا۔ پارٹیشن کے باوجود پاکستان کے حکمران بائیں بازو کے نظریات اور تحریکوں سے بہت ہی خائف تھے اور انہوں نے خصوصاً بائیں بازو کے طالب علموں کو ریاستی قہر کا نشانہ بنانے کا بنیادی وطیرہ اپنایا۔ اس میں راولپنڈی سازش کیس کے تحت بائیں بازو کے جو تھوڑے بہت لیڈر تھے ان کو گرفتار کر لیا تھا۔ 1957ء میں مولانا عبدالحمید بھاشانی مغربی پاکستان آئے اور انہوں نے مختلف بائیں بازو کے لیڈروں سے مل کر نیشنل عوامی پارٹی قائم کی لیکن اس کی نظریاتی ساکھ ریڈیکل سوشل ڈیموکریسی سے زیادہ نہیں تھی۔ اسی دوران بائیں بازو نے مختلف شہروں میں کسان تحریکیں ابھاریں لیکن ان کو حکومتوں نے آسانی سے کچل دیا۔ ان تمام سیاسی سرگرمیوں میں طلبہ کا ایک اہم کردار رہا تھا۔ لیکن کوئی بڑی تحریک نہیں ابھر سکی تھی اور طلبہ سیاست عمومی طور پر زیادہ سرگرم کردار ادا نہیں کر سکی تھی۔ لیکن پھر عہد بدلا۔ عالمی پیمانے پر حالات نے کروٹ بدلی اور پھر چوتھائی صدی بعد ایک انقلابی دور کا آغاز 1960ء کی دہائی کے دوسرے حصے میں شروع ہوا۔
گو پاکستان میں 1964ء میں طلبہ کی اپنے مطالبات اور ایوبی آمریت کے خلاف ایک بڑی تحریک ابھری تھی لیکن وہ محنت کش طبقے کو متحرک نہیں کر سکی تھی۔ لیکن 6 نومبر 1968ء کو راولپنڈی پولی ٹیکنیک کالج کے طالب علم عبدالحمید کے پولیس فائرنگ سے شہید ہونے کے بعد ایک انقلابی طوفان امڈ آیا جو جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک (مغربی و مشرقی پاکستان) میں پھیل گیا۔ طلبہ کی یہ تحریک پاکستان کی اب تک کی تاریخ کے عظیم ترین انقلاب، جس کا بنیادی کردار سوشلسٹ تھا، کا نقطۂ آغاز بن گئی۔ یہ انقلابی تحریک بظاہر نا قابل تسخیر نظر آنے والی ایوب آمریت کو روند کر آگے بڑھتی گئی۔ لیکن یہاں بھی 1946ء والے المیے کا سامنا تھا۔ محنت کش اور نوجوان ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کر رہے تھے، فیکٹریوں پر قبضے ہو رہے تھے اور ’’بائیں بازو‘‘ کے نظریہ دان ’’جمہوریت‘‘ کے راگ الاپ رہے تھے۔ حتیٰ کہ بیجنگ نواز لیفٹ نے تو پوری تحریک کو ’’امریکی سازش‘‘ قرار دے دیا تھا کیونکہ ایوب خان چین کا بڑا یار تھا۔
انقلابی پارٹی کے اس خلا کو نومولود پیپلز پارٹی نے سوشلزم کا نعرہ لگا کر پُر کیا اور ریاست کے لئے انقلاب کو انتخابات کے راستے پر زائل کرنا آسان ہو گیا۔ پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور ملکی تاریخ میں تعلیم، علاج، صنعت، زراعت، لیبر اور دوسرے شعبوں میں سب سے ریڈیکل اصلاحات کی گئیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ ریاست اور معیشت کے ڈھانچے برقرار رہے کیونکہ پیپلز پارٹی کوئی بالشویک پارٹی نہ تھی۔ سرمایہ داری میں چونکہ اس وقت بھی اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لیے جونہی اس نظام کا بحران بڑھا سماج میں انتشار بڑھنا شروع ہو گیا۔
چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی بنیادی طور پر طلبہ تحریک کی حمایت سے ابھرے تھے۔ اس وقت طلبہ میں بائیں بازو کا بڑا رجحان این ایس ایف کی شکل میں تھا۔ گو اس تنظیم میں بھی بہت سے ماسکو نواز، پیکنگ نواز اور دوسرے بائیں بازو کے عناصر تھے لیکن جب تحریک ابھری تو طلبہ نے نظریاتی انحراف اور موقع پرستی کے رجحانات کو رد کر کے نظام کی یکسر تبدیلی اور سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ لگایا۔ پیپلز پارٹی نے پی ایس ایف کے نام سے جو طلبہ کی تنظیم بنائی تھی اس کا واضح سوشلسٹ پروگرام این ایس ایف سے بھی زیادہ ریڈیکل ہونے کی وجہ سے طلبہ کے لیے پرکشش تھا۔ حتیٰ کہ بھٹو صاحب کو کئی مرتبہ این ایس ایف کے جلسوں میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ 1967ء سے 1972ء تک پی ایس ایف تیزی سے بڑھی اور این ایس ایف کے بہت سے دھڑے اسی میں شامل ہوئے۔
چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جو اصلاحات کیں تھیں ان میں ایک اہم اقدام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کی یونین سازی کے حق کا اجرا تھا۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں بہت سے نجی تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لیے گئے، حتیٰ کہ ایچی سن کالج اور ایف سی لاہور جیسے اشرافیہ کی اولادوں کے تعلیمی اداروں کو بھی نیشنلائز کیا گیا۔ تعلیم کے بجٹ میں کئی گنا اضافہ، دسویں تک تعلیم مفت، طلبہ کے لیے دس پیسے کرایہ اور دوسرے ایسے اقدامات ہوئے جو اس ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے یا بعد میں نہیں ہو سکے۔ اس عہد میں جمعیت یا دائیں بازو کے دوسرے رجحانات کی طلبہ میں بنیادیں بہت کم تھیں۔ اگر کوئی تنظیمیں طلبہ کی بڑی حمایت رکھتی تھیں تو ان کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب ہی تھا۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ پیپلز پارٹی کی نظریاتی زوال پزیری اور حکومتی زوال کا عمل بھی شروع ہو چکا تھا۔ ادھوری اور بیوروکریٹک نیشنلائزیشن (ادارے ورکرز یا پبلک کنٹرول کی بجائے افسروں کے تسلط میں دے دئیے گئے)سے جو ریاستی سرمایہ داری یا کینیشین معیشت ابھری اس کا وقت عالمی طور پر ختم ہو رہا تھا۔ اس سے بلند افراط زر نے جنم لیا۔ تحریک کا پریشر جوں جوں کم ہوتا گیا بھٹو صاحب کا دائیں بازو کی طرف جھکاؤ بڑھتا گیا۔ عوام میں یہ سوچ حاوی ہوتی گئی کہ یہ وہ منزل نہیں تھی جس کے لئے جدوجہد کی گئی تھی۔ اس کیفیت میں طلبہ میں بے چینی پھیلنی شروع ہوئی اور جیسے تحریک کے عروج میں سب سے پہلے طلبہ متحرک ہوتے ہیں اسی طرح انقلابی پسپائی کے پہلے اثرات بھی طلبہ میں ہی نمایاں ہونے شروع ہوتے ہیں۔ افراطِ زر سے جنم لینے والی مہنگائی نے اس صورت حال کو مزید بگاڑ دیا۔ پاکستان میں پہلی بار طلبہ سیاست میں دائیں بازو کا غلبہ بڑھنا شروع ہوا۔ اس پراگندگی کو دائیں بازو کی رجعتی اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف مبذول کروایا گیا۔ اس وقت جماعت اسلامی براہ راست امریکی سامراج کی گماشتگی کر رہی تھی اور پاکستان میں سرمایہ داری کی سب سے بڑی پیروکار تھی۔ لیکن طلبہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کا پھیلاؤ جہاں سی آئی اے کے پیسے اور دوسرے ہتھکنڈوں سے ہو رہا تھا وہاں پیپلزپارٹی حکومت میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی سرائیت نے بائیں بازو کے طلبہ کو دوہرے جبر کا شکار کر نا شروع کر دیا تھا۔ ایک طرف تو اسے جمعیت کی غنڈہ گردی کے ذریعے کچلا جا رہا تھااور دوسری جانب خصوصاً پنجاب میں صادق قریشی جیسے رجعتی جاگیردار کے پیپلزپارٹی حکومت میں وزیر اعلیٰ بن جانے سے پولیس اور دوسرے سرکاری ادارے بھی بائیں بازو کے طلبہ پر ظلم ڈھا رہے تھے۔
زوال پزیری کا عہد
یہ صورتحال بالآخر دائیں بازو کی سی آئی اے کی حمایت یافتہ پی این اے کی 1977ء کی تحریک پر منتج ہوئی جس کے بعد پیپلز پارٹی حکومت کو معزول کر دیا گیا اور ضیاالحق کی درندہ صفت آمریت کے تحت چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا 4اپریل 1979ء کو بھیانک عدالتی قتل کر دیا گیا۔ ادھورا انقلاب کرنے والے اپنی قبر خود کھودتے ہیں، اس بات کا اعتراف بھٹو صاحب نے جیل میں لکھی گئی اپنی کتاب میں واضح طور پر کیا۔
ضیا کی آمریت کے جبر تلے پاکستان میں طلبہ تحریک کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ جماعت اسلامی اور اسکی بغل بچہ اسلامی جمعیت طلبہ وحشی آمریت کی بی ٹیم بن گئے۔ طلبہ سیاست میں سب سے پہلے کلاشنکوف، لمپن ازم اور غنڈہ گردی جمعیت نے ہی متعارف کروائی اور ایسا دانستہ طور پر ریاست کی پشت پناہی سے کیا گیا تاکہ ترقی پسند رجحانات کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ لیکن ضیاالحق کے جبر کے خلاف طلبہ میں ایک نئی مزاحمت ابھری جس نے حکمران طبقے کے پالیسی سازوں کو حیران کر دیا۔ بیشتر تعلیمی اداروں میں جمعیت اور دوسری دائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات ہارنے لگیں۔ ان انتخابات میں ان شکستوں سے خوفزدہ ہو کر ضیاالحق نے 16 اکتوبر 1979ء کو طلبہ یونینز پر پابندی لگا کر بائیں بازو کی تنظیموں کو کچلنا شروع کر دیا۔ اس پابندی کے خلاف پھر بہت سے تعلیمی اداروں میں تحریکیں اور بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ طلبہ کے شدید رد عمل کے پیش نظر یہ پابندی ضیا کو اٹھانی پڑی جس کے بعد ہونے والے یونین انتخابات میں پورے ملک میں ریاست کی تمام تر پشت پناہی کے باوجود جمعیت اور دائیں بازو کی تنظیموں کو بائیں بازو کے الائنس کے ہاتھوں ایک بار پھر شکست ہوئی۔ ان حالات میں اکتوبر 1984ء میں طلبہ یونین پر پھر سے پابندی لگا دی گئی جو آج تک برقرار ہے اور کوئی ’’جمہوری حکومت‘‘ بھی ضیا کی اس پالیسی کو ختم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔
ضیاآمریت کے خلاف 1979ء تا 1981ء سندھ میں اور 1983ء، 1986ء اور 1988ء میں ملک بھر میں ابھرنے والی تحریکوں میں طلبہ نے بے پناہ قربانیاں دیں اور بے مثال جدوجہد کی۔ لیکن اس عہد میں سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا، چین میں سرمایہ داری کی بحالی کا عمل شروع ہو چکا تھا، مزدور تحریک نیولبرل ازم کے حملوں سے نڈھال تھی اور پوری دنیا میں بایاں بازو زوال پذیری سے دو چار تھا۔ این ایس ایف کے زوال کے بعد کمیونسٹ پارٹی سے ملحقہ ڈی ایس ایف اور زیادہ بڑے پیمانے پر بی ایس او (بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) نے ان مزاحمتی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان میں بی ایس او کی بھی ریاست اور مختلف حکومتوں کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس میں بائیں بازو کے انقلابی رجحانات حاوی تھے لیکن خصوصاً سوویت یونین کے انہدام کے بعد قوم پرستی حاوی ہوگئی۔ یہی صورتحال کسی حد تک پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں بھی رہی ہے جہاں اے این پی کی قیادت کی سرمایہ داری سے مکمل مصالحت سے ترقی پسند رجحانات کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج بی ایس او کے طلبہ ایک بار پھر انقلابی سوشلزم اور مارکسزم کی طرف مائل نظر آتے ہیں اور ان بنیادوں پر نئے سرے سے تنظیم سازی کا عمل جاری ہے۔
ضیا آمریت کے خاتمے کے بعد جو جمہوری حکومتیں آئیں ان کی بنیادی معاشی پالیسیاں سرمایہ داری پر ہی مبنی تھیں۔ جمہوریت اور آمریت ایک ہی معاشی نظام کو چلانے کے دو طریقے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ہمیشہ اس وقت لائی گئی جب نظام اور ریاست کو کسی عوامی تحریک کا سامنا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کو غلاظت صاف کرنے والے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتی رہی اور ’’مصالحت‘‘پر بضد پارٹی قیادت اس پر فخر کرتی رہی۔ نظریات سے انحراف کا جو عمل بی بی نے شروع کیا اسے زرداری نے بطریق احسن انجام تک پہنچایا اور ایک انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی پیپلز پارٹی کی بقا پر ہی آج سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ زوال پزیری کا یہی عمل پی ایس ایف میں بھی جاری رہا اور جدوجہد کا درخشاں ماضی رکھنے والی یہ تنظیم آج عملی طور پر کم و بیش مٹ چکی ہے۔
اگر ہم طلبہ سیاست کی تاریخ کا جائزہ لیں تو عالمی سطح پر بھی اس کی زوال پذیری 1980ء کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ اس سے قبل طلبہ تحریک ایک ٹھوس سیاسی اور سماجی قوت کا درجہ دنیا بھر میں رکھتی تھی۔ خاص کر 1960ء اور 70ء کی دہائیاں طلبہ سیاست کے نقطہ عروج کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس عہد میں مضبوط ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک موجود تھی اور پوری دنیا میں انقلابی تحریکیں برپا ہو رہی تھیں۔ کیوبا، شام، مصر، یمن، ایتھوپیا، موزمبیق اور تیسری دنیا کے کئی ممالک میں انقلابات برپا ہوئے اور سامراج مخالف بائیں بازو کی قوتیں برسر اقتدار آئیں۔ جنگ ویت نام اس عہد کے کردار کی علامت کا درجہ رکھتی ہے۔ سامراج کے خلاف یہ جنگ صرف ویت نام کے جنگلوں میں ہی نہیں بلکہ امریکہ کی سڑکوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی لڑی گئی تھی۔ امریکی ریاست کے بد ترین تشدداور جبر کے باوجود بھی طلبہ نے جنگ مخالف تحریک جاری رکھی اور سامراج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر چے گویرا کی تصویر اسی عہد میں مشہور ہوئی تھی۔ فلسطین کی تحریک آزادی کی تمام تر باگ ڈور ہی اس وقت PFLP جیسی بائیں بازو کی تنظیموں کے ہاتھ تھی۔ 1968ء کے انقلاب فرانس کا آغاز ہی طلبہ نے کیا تھا جس میں بعد ازاں محنت کش طبقہ بھی شامل ہو گیا۔ فرانس کی فیکٹریاں، دفاتر، کالج اور یونیورسٹیوں پر محنت کشوں اور نوجوانوں نے قبضے کر لئے، انتظامی امور کے لئے کمیٹیاں منتخب کی گئیں اور ریاست کو مفلوج کر دیا۔ لیکن روایتی ٹریڈ یونین قیادت کی غداری نے اس انقلاب کو ضائع کر دیا جو یورپ اور پوری دنیا کا نقشہ بدل سکتا تھا۔ اٹلی، آئر لینڈ، میکسکو، یونان وغیرہ میں بھی اس عہد میں انقلابی تحریکیں اٹھیں جن میں نوجوان اور طلبہ نے ہراول کردار ادا کیا۔
انقلابی نظریات کی اہمیت اور لائحہ عمل
ایک انقلابی لائحہ عمل پر قائم رہنے اور انقلابی سوشلزم کو اس مشکل ترین معروض میں سر بلند رکھنے کی ایک شاندار مثال جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صورت میں موجود ہے۔ اس کا آج تک کشمیر کے طلبہ اور نوجوانوں کی سرگرم انقلابی روایت کے طور پر قائم رہنا صرف اس لیے ممکن ہوا کیونکہ جرات مند مارکسی قیادت نے مشکل ترین معروض میں دشواریوں، تکلیفوں اور داخلی حملوں کا دلیری سے سامنا کر کے نظریات کی فتح اور بقا کے لیے بے پناہ قربانی، ہمت اور عزم کا مظاہرہ کیا، وگرنہ این ایس ایف اور پی ایس ایف کی طرح JKNSF بھی تاریخ کی گرد تلے دب جاتی۔
جہاں بہت سے موضوعی عناصر کی وجہ سے طلبہ کی انقلابی یا بائیں بازو کی تنظیمیں زوال پذیر ہوئی ہیں وہاں معروضی طور پر بھی بیس پچیس سال سے سماجی نفسیات بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس معروض کے طلبہ اور نوجوانوں پر بھیانک اثرات ہوئے ہیں۔ ایک جانب اس کیفیت میں جنم لینے والی محرومی، ناکامی، بیگانگی اور پراگندگی نے بہت سے طلبہ اور نوجوانوں کو مذہبی جنونیت اور دہشت گردی کی جانب دھکیل دیا ہے تو دوسری جانب سرمایہ دارانہ لبرل ازم اور مغرب زدہ سوچوں نے بے ہودگی، بدتمیزی، لالچ، ہوس، خودغرضی، نمائش اور غنڈہ گردی کو جنم دیا ہے۔ یہ دونوں منفی رجحانات لمپن ازم کی مختلف شکلیں یا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے، چینی افسر شاہی کے سرمایہ داری کی طرف لانگ مارچ اور دیوارِ برلن کے گرنے کو اب تقریباًتین دہائیاں ہو چکی ہیں۔ نئی نسل کا شعور ماضی کی ان شکستوں اور غداریوں سے داغدار نہیں ہے۔ وہ بے روزگاری اور تاریک مستقبل سے پریشان ہیں اور انقلابی متبادل کے متلاشی ہیں۔
جہاں طلبہ خود کوئی طبقہ نہیں ہوتے وہاں مختلف طبقات سے تعلق ضرور رکھتے ہیں۔ تعلیم کی مختلف سطحوں پر ان کی سوچ اور مقاصد بھی مختلف ہوتے ہیں۔ جب تک موجودہ نصاب اور تعلیمی نظام ان کے دماغوں میں کیرئیرازم کی سوچ پروان نہیں چڑھا پاتا تب تک وہ کچھ بڑا کر جانے اور انقلابات کے ذریعے سماج کو بدل دینے کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت کے بحران نے جس طرح اعلیٰ تعلیم میں ایم بی اے اور اس قسم کی دوسری ڈگریوں اور تعلیم کے لیے مستقبل تاریک کر دیا ہے اس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں بھی اب بے چینی اور بغاوت کے جذبات ابھر رہے ہیں۔ یہی سوچ ان کو انقلاب کی جانب راغب کر سکتی ہے۔
تعلیم بھی سماجی ارتقاکی کیفیت اور طرز سے مبرا نہیں ہوا کرتی۔ جب صنعت کاری اور معاشی ترقی کسی حد تک سماجی ثمرات دیتی ہے تو طالب علم اور ان کے والدین انجینئر، ڈاکٹر، وکیل وغیرہ بننے کی تعلیم کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ لیکن اب سرمایہ داری میں تو کسی بہتری اور ترقی کی سکت باقی نہیں رہی ہے۔ معاشی و سماجی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی اور ضروریات کی محرومی مزید بڑھے گی۔ یہ اس نظام کا ناگزیر انجام ہے۔
اس نظام کی نمائندگی کرنے والی مذہبی، لبرل، قومی، لسانی، جمہوری پارٹیاں اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔ ان کی پروردہ طلبہ تنظیموں کی بھی یہی حالت ہے۔ آج سیاسی پارٹیاں ہی طلبہ اور طلبہ سیاست کو ڈی پولیٹیسائز کر رہی ہیں۔ ہر راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ تعلیم اور علاج عوام کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں۔ زندگی ایک عذاب بن گئی ہے۔ جینا مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے میں سوشلسٹ انقلاب کے علاوہ راستہ ہی کون سا بچا ہے ؟ ایسی صورتحال میں پہلی ذہنی کیفیت مایوسی اور پراگندگی کی ابھرتی ہے۔ لیکن ایک سوشلسٹ انقلاب کے مقصد کے لیے اگر ایک لینن اسٹ پارٹی سماج میں ابھرتی ہے تو اس میں ابتدائی کردار انہی طالب علموں اور نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ یہی پھر انقلاب کا پیغام لے کر فیکٹریوں، کھیتوں، کھلیانوں اور دوسرے اداروں میں جاتے ہیں۔ لیکن جہاں وہ انقلابی پرچے سٹڈی سرکل اور دوسرے جدید طریقوں سے انقلابی نظریات کا مزدوروں میں پرچار کررہے ہوتے ہیں وہاں وہ شعوری یا لا شعوری طور پر مزدوروں سے بہت کچھ سیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔ یہاں صرف ایک طبقاتی نظام تعلیم ہی نہیں ایک طبقاتی نصاب تعلیم بھی ہے۔ لیکن اس بحران زدہ نظام کا بلند ترین نصاب بھی بوسیدہ ہو چکاہے۔ اس لیے یہ امر بھی سمجھنا ضروری ہے کہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ افراد بہت جاہل اور بدتمیز بھی ہوسکتے ہیں اور سفید ان پڑھ لوگ بہت ذہین، عقل مند اور مہذب بھی ہوتے ہیں۔
2008ء کا معاشی کریش ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کو ترقی، آسودگی اور خوشحالی دینے سے قاصر ہو چکا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد شروع ہونے والا مایوسی، جمود اور پراگندگی کا دور اب ماضی میں بدل رہا ہے اور نیا عہد طلوع ہو رہا ہے جو دھماکہ خیز واقعات اور انقلابی تحریکوں سے بھرپور ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران تعلیم کی نجکاری اور فیسوں میں اضافے کے خلاف فرانس، چلی، سپین، یونان اور برطانیہ میں طلبہ کی طاقتور ایجی ٹیشن، امریکہ میں آکوئی وال سٹریٹ تحریک اور 2011ء میں پوری دنیا کو لرزا دینے والے عرب انقلاب جیسے واقعات ثابت کرتے ہیں محنت کشوں کی طرح نوجوان بھی پوری دنیا میں بیداری کی انگڑائی لے رہے ہیں اور تاریخ کے میدان عمل میں اتر رہے ہیں۔
اس نظام کے پاس دینے کے لئے ناخواندگی، بیروزگاری، ذلت، محرومی اور غربت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ سرمایہ داری کا بحران کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھے گا اور حکمران طبقہ زیادہ زور دار معاشی حملے کرے گا۔ لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے لیکن فتح تبھی ممکن ہے جب اس لڑائی کو انقلابی مارکسزم کے نظریات کے تحت طبقاتی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ پاکستان میں جمود کا یہ عہد صدا نہیں چلے گا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کا قیام اور کامیاب مرکزی کنونشن کا انعقاد عیاں کرتا ہے کہ ایک نئے عہد کا آغاز ہو رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں طلبہ کی چھوٹی تحریکوں اور ایجی ٹیشن سے واضح ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے لئے حالات ناقابل برداشت ہو رہے ہیں۔ وہ بڑی بغاوت بھی کریں گے اور اس بغاوت کی تیاری ابھی سے ان کی نظریاتی تربیت اور تنظیم سازی کے ذریعے کرنا آج کا تاریخی فریضہ ہے!