جامعہ بلوچستان میں ہراسمنٹ سکینڈل، تفتیشی کمیٹیاں یا طلبہ اتحاد؟

|تحریر: خالد مندوخیل|

بلوچستان یونیورسٹی حالیہ دنوں ایک شدید اضطرابی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ انتظامیہ کے تمام اہلکار، وائس چانسلر اور سیکورٹی افسروں سمیت سب کے اوسان خطا ہیں۔ سرکاری اداروں سے لیکر یونیورسٹی انتظامیہ تک کو کچھ سجھ نہیں آرہا کہ معاملے کو کیسے رفع دفع کیا جائے۔ کبھی یونیوسٹی کی بدنامی کا واویلا کیا جاتا ہے تو کھبی احتجاجوں اور تحریکوں کے دباو میں آکر ایک دوسرے پر الزام تراشیاں شروع کی جاتی ہیں۔ ہر ایک کو اپنی جان کی پڑی ہے۔ انتظامیہ کے اوپر ایک خوف کا پہاڑ گر پڑا ہے، غرض یہ کہ اس حمام کے سب ننگے شدید پریشان ہیں۔

طلبہ تنظیمیں بھی عام طالبعلموں کے کسی آزادانہ تحریک کے خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر طلبہ کے اندر اس جبر اور ظلم کے خلاف موجود غم و غصے کو کوئی آزادانہ اظہار کا موقع ملا تو وہ ان تنظیموں کے اختیار سے باہر ہو سکتا ہے یا ان کے خلاف طلبہ کے دل و دماغ میں موجود نفرت کی بنیاد پر طلبہ ان کو بھی مسترد کرسکتے ہیں۔ اس کا اندازہ کچھ دن پہلے یونیورسٹی میں نکالی گئی ریلی سے لگایا جا سکتا ہے جس کے اندر ایک بھی طالبہ شامل نہیں ہوئی تھی۔ طلبہ کی اکثریت کو خوب علم ہے کہ اس وقت یونیورسٹی کے اندر طلبہ کے نام پر موجود تنظیمیں، طلبہ کے حقوق کی حقیقی جدوجہد کے علاوہ سب کچھ کرتی ہیں۔

جب سے طلبہ یونین پر پابندی لگی ہے تب سے طلبہ کا ایک حقیقی نمائندہ پلیٹ فارم تعلیمی اداروں کے اندر موجود نہیں ہے۔ لیکن طلبہ یونین کے بارے میں طلبہ کی اکثریت کو بے خبر رکھنے کیلئے، انہیں اپنے حق کی آواز بلند کرنے اور حقیقی سیاست میں حصہ لینے سے محروم رکھنے کیلئے انکی یونین کی جگہ ایک طرف بنیاد پرست تنظیموں کو لایا گیا تو دوسری طرف لسانی و علاقائی گروپس کو طلبہ کو آپس میں تقسیم کرنے کیلئے اور لڑوانے کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی۔ اسلحہ کلچر، غنڈہ گردی، منشیات، اقرباپروری، سفارش، کرپشن وغیرہ کو سیاست میں عام کیا گیا تاکہ طلبہ سیاست سے نفرت کرنے لگیں اور وہ اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔

آج جب کسی تحریک کے اٹھنے کا امکان نظر آرہا ہے تو وہاں موجود طلبہ تنظیمیں اپنی ساکھ بچانے کیلئے مقابلہ بازی اور دوڑ بھاگ میں کود پڑتی ہیں۔ جبکہ طلبہ کنارے پہ کھڑے ہوکر ان نام نہاد تنظیموں کا تماشا دیکھ کر ان کا مذاق اڑا نے کیساتھ ساتھ ان پر تجزیے بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ ان نام نہاد تنظیموں کے حقیقی چہرے سے واقف ہونے اور کسی متبادل کے (بڑی تعداد میں) سامنے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس عمل سے لاتعلقی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر ان نام نہاد تنظیموں کے کارکنان کی جانب سے عام طلبہ کو جاہل اور بے وقوف ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں جوکہ انکی سیاسی جہالت کو واضح کرتا ہے، جسکی پروگریسو یوتھ الائنس کھلے الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔

لیکن معاملے کا ایک اور اہم پہلو جسکو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کے اندر موجود عام طلبہ کی اکثریت کے دل و دماغ پر بھی ایک بہت اہم سوال چھایا ہوا ہے کہ اگر یہاں موجودہ تنظیمی ڈھانچوں کے اندر انکی نمائندگی نہیں ہے، تفتیشی کمیٹیاں برائے نام ہوتی ہیں، تو پھر ان مسائل کا کوئی اور حل ہوبھی سکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہو سکتا ہے تو کیا؟

ہراسگی کے حوالے سے ان کو چاروں اطراف سے مختلف ”نقطہ نظر“ سننے کو مل رہے ہیں۔ کسی طرف سے بتایا جاتا ہے کہ وائس چانسلر بشمول کچھ ملوث اہلکاروں کو ہٹا کر باقی سب خیریت سجھ لیا جائے اور سسٹم کو اسی طرح رہنے دیا جائے۔ کوئی اس معاملے پر قومی و علاقائی غیرت کے گن گا کر اپنی قدامت پسندی کا فرسودہ چہرہ بے نقاب کرتے نظر آتے ہیں جن کے ہاں عورت انکی عزت ہے، ناموس ہے یا انکی ملکیت ہے۔ جبکہ ایک انتہا اور ہے جو عورتوں کو مردوں سے الگ کرتے ہوئے مردوں کے خلاف چیختے نہیں تھکتے جبکہ اسی سکینڈل میں ملوث انتظامیہ کے ساتھ ساتھ گرلز ہاسٹلز کی خواتین وارڈن بھی طالبات کی جنسی ہراسگی میں سہولت کار رہی ہیں۔

کیا کوئی راستہ ہے؟

طلباء و طالبات بلوچستان یونیورسٹی سمیت ہر تعلیمی ادارے کے اصل مالک ہیں جو انکی فیسوں سے چلتے ہیں۔ آج جو صورتحال ادارے کے اندر بنی ہوئی ہے اس میں تمام مسائل کے خلاف لڑنے کیلئے اور اپنا کردار ادا کرنے کیلئے سرگرم عمل ہونے اور تمام طلباء و طالبات کو منظم جدوجہد کے اندر لانے کی اصل ذمہ داری انہی عام طلباء و طالبات کے کندھوں پر آتی ہے۔

آج یہ بات واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومتی ادارے پہلے تو اس سکینڈل کو سامنے نہیں لانا چاہتے تھے لیکن جب یہ لاوہ پھٹنے سے نہیں بچ سکا تو حکومت اور انتظامیہ نے مل کر پارلیمانی اور تفتیشی کمیٹیوں کا انتظام کیا تاکہ طلبہ کے غصے کو ٹھنڈا کرتے ہوئے معاملے کو کسی طرح رفع دفع کر سکیں۔ یاد رہے کہ طلباء و طالبات کی جنسی اور نفسیاتی ہراسمنٹ بلوچستان یونیورسٹی کیساتھ ساتھ بیوٹمز، بولان میڈیکل یونیورسٹی جیسے باقی اداروں اور خاص کر گرلز کالجز، ہاسٹلز حتیٰ کہ سماج میں ہر قدم پر زورشور سے جاری ہے جہاں بار بار ان اداروں میں ہراسمنٹ کے واقعات بھی سامنے آئے جن پر انتظامیہ نے کسی طرح سے لے دے کر یا ڈرا دھمکا کر پردہ ڈال دیا تھا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس جرم میں ملوث افراد کو اصل سزا تفتیشی کمیٹیاں، حکومتی ادارے، پولیس یا عدالت نہیں دے سکتی اور اگر انہیں عہدوں سے ہٹایا بھی جائے (اور واقعی ہٹانے کے علاوہ سخت سزا بھی دینی چاہئے) تو یہ سلسلہ اس نظام کے اندر موجود رہے گا۔ جب تک طلبہ کی ایک مظبوط نمائندہ قوت اور منظم پلیٹ فارم (طلبہ یونین) موجود نہ ہو۔ لیکن اس وقت تمام احتجاجوں اور ریلیوں کے اندر ”وی سی ہٹاو“ جیسے سطحی مطالبے کے علاوہ کوئی خاص سیاسی حل اور پروگرام سامنے نہیں لایا جا سکا ہے۔
ان مجرموں کو سزا دینے اور ایسے مسائل کا مستقل طور پر راستہ روکنے کا اصل کام نام نہاد کمیٹیوں کی بجائے طلبہ کی ایک متحد اور آزادانہ قوت ہی کر سکتی ہے۔ طلبہ کو ہراسمنٹ کے خلاف لڑنے کیساتھ ساتھ دیگر تمام تعلیمی مسائل کے حل اور طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کو اس لڑائی میں جوڑنا ہوگا۔

آج تک طلبہ کو قومی، مذہبی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہوئے تمام طاقتور لوگ اپنی عیاشیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ آج طلبہ ان تمام تقسیموں کے خلاف پر عزم اور جرات مند جدوجہد کرتے ہوئے ہی اس نظام کو بھی بدل سکتے ہیں، مفت تعلیم اور طلبہ یونین بھی حاصل کر سکتے ہیں، ہراسمنٹ اور دیگر قومی، لسانی، علاقائی اور صنفی جبر اور استحصال کا خاتمہ بھی کر سکتے ہیں۔
آو مل کر اس تمام غلاظت کی بنیاد کے خلاف لڑیں اور ذاتی ملکیت پر مبنی اس سرمایہ دارنہ نظام کے خلاف لڑیں جس میں عورت بھی باقی چیزوں کی طرح ایک چیز اور مرد کی ملکیت سمجھی جاتی ہے۔

ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ یونین بحال کرو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.