|تحریر: ہمراز سروانی|
گزشتہ دنوں جامعہ گجرات مین کیمپس میں ایک طالبعلم کی بس سے گر کر موت ہو گئی جس کے بعد جامعہ انتظامیہ نے بس ڈرائیور کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔ اس سانحے کے اصل ذمہ داران اپنا دامن بچانے کے لئے ایک غریب ڈرائیور کے خلاف مدعی بن بیٹھے۔ جس جس کو بھی جامعہ گجرات کے ٹرانسپورٹ سسٹم سے کبھی بھی واسطہ پڑا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ بسوں کی تعداد ضرورت سے کتنی کم اور بیشتر بسوں کی حالت کتنی غیر ہے۔ یہ بسیں چلتے پھرتے موت کے چرخے ہیں جن پر ہمیشہ جامعہ کے طالبعلم لدے لٹکے نظر آئیں گے۔ اس کے علاوہ بس سٹینڈ پر مچی رہنے والی بھگدڑ اور منصوبہ بندی کا فقدان بھی اس سانحے کی بڑی وجوہات ہیں۔
طالبعلم کی موت کا اکیلا قصوروار وہ ڈرائیور نہیں بلکہ بڑے قصوروار جامعہ کے وہ کرتا دھرتا ہیں جو ہر کانووکیشن پر کسی بڑے عوامی نمائیندے کے سامنے چھاتی پھلا کر یہ بتاتے رہتے ہیں کہ کتنے فیصد بجٹ جامعہ خود جنریٹ کرتی ہے (طالبعلموں سے بھاری بھرکم فیس لے کر) اور یہ بات کرتے ہوئے نہ انہیں شرم آتی ہے اور نہ ہی ہزاروں ٹیکس دہندگان کے سامنے بیٹھ کر یہ بات سنتے ہوئے اس عوامی نمائندے کو شرم آتی ہے اور اس کے بعد مل کر اس مکروہ پریکٹس پر بغلیں بجائی جاتی ہیں اور ایک دوسرے کو داد دی جاتی ہے۔ محدود بسوں کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا ٹرانسپورٹ نیٹ ورک رکھنے والی جامعہ آج تک ارباب اختیار سے اپنی بسوں کی ضرورت تک تو پوری کروا نہیں پائی لیکن خوشامد میں یہ اعلی تعلیم کے بیوپاری آپ کو سب سے آگے نظر آئیں گے کہ جیسے یہی اصل کام ہے جس کے لئے ان کی تقرریاں ہوئیں۔
اب یہ سب مل کر اس پورے کے پورے فیاسکو کا سارا ملبہ ایک محنت کش ایک ڈرائیور پر ڈالنے کے درپے ہیں اور صبح شام دعائے مغفرت کر کے اور اس دعائے مغفرت میں شرکت کرنے والی پوری پلٹون کے نام بمعہ عہدہ جامعہ کے تعلقاتِ عامہ کے فیس بک صفحے سے شائع کر کے مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ جامعہ میں کوئی ڈرائیورز یونین نہیں جو اس استحصال پر ان کا گریبان پکڑے۔ ڈرائیورز کے استحصال کے اس سے پہلے بھی کافی واقعات پیش آچکے ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ جامعہ کے طلبہ اس مسئلے کو سمجھیں اور اس پورے واقعہ کے خلاف آواز اٹھائیں۔