|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، گوجرانوالہ|
25جنوری 2023 ء کو گوجرانوالہ میں چیمبر آف کامرس کی جانب سے ایوانِ صنعت و تجارت گوجرانوالہ میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام میں طلبہ کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی۔ مختلف تعلیمی اداروں سے طلبہ نے اس پروگرام میں شرکت کی۔
یاد رہے چیمبر آف کامرس سرکاری سرپرستی میں چلنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو سارے ذخیرہ اندوزوں، بڑے دوکانداروں، کارخانہ داروں اور دیگر سرمایہ داروں کا ایک ایسا کلب ہوتا ہے، جس میں وہ مل بیٹھ کر اپنے منافعے کو زیادہ کرنے، ورکرز کی اجرتوں کو کم سے کم رکھنے، اور ہر اس مسئلے پر غور و فکر کرتے ہیں جس کا تعلق ان کے سرمایہ دارانہ عزائم کے ساتھ ہو۔
گوجرانوالہ کے انہی سرمایہ داروں کے اس کلب کی ایک خاصیت یہ بھی ہے، کہ انہوں نے آج تک گوجرانوالہ میں ایک بھی مزدور یونین نہیں بننے دی۔ اگر کسی نے کوشش کی بھی ہے، تو انہوں نے اس کو سختی سے کچلا ہے۔ مزدوروں پر جھوٹے پرچے کروا ئے جاتے ہیں اور ان کو گھروں سے اٹھوا لیا جاتا ہے۔ اس کام میں ساری پولیس اور ساری بیورو کریسی اور باقی ریاستی ادارے ہمیشہ سے سرمایہ داروں کے تلوے چاٹتے نظر آتے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہے، کہ طلبہ اور مزدوروں کو سیاست سے دور رکھا جائے تاکہ وہ اپنے حق کے لیے کبھی آواز نہ اٹھائیں۔
سرمایہ داروں اور سرکاری عہدے داروں پر مشتمل اس گروہ کے پروگرام میں طلبہ کو دعوت دینے کامقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ طلبہ کو سیاسی شعور دیا جائے بلکہ ان کا مقصد طلبہ کو بھی مزدوروں کی طرح سیاست سے دور رکھنا اور”اینٹر پرینیور شپ“ کے نام پر ایک روشن مستقبل کے جھوٹے خواب دکھانا ہے۔
اس پروگرام میں بھی یہی کیا گیا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو اپنے سامنے بٹھا کر گھنٹوں کے لیکچر سنا کر بور کیا گیا۔ جس میں صرف ایک بات کی گونج سنائی دیتی رہی کہ”طلبہ کو سیاست سے دور رہنا چاہیے“۔
”طلبہ کو سیاست سے دور رہنا چاہیے“۔ طلبہ کو یہ بات سمجھانے کے لیے حکمران طبقہ کروڑوں اربوں روپے برباد کر رہا ہے۔ کیا یہ از خود ایک ”سیاسی بیانیہ“ یا سیاسی حکم نہیں ہے؟ کہ طلبہ سیاست سے دور رہیں، اور اقتدار پر وہی ایک مخصوص ٹولی براجمان رہے جن میں سے ہر ایک کی کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ طلبہ کو باقاعدہ سازش کے ساتھ سیاست سے دور رکھا گیا ہے۔ کیونکہ طلبہ سماج کی وہ پرت ہوتے ہیں جن کے پاس سیاست، معیشت اور دوسرے سماجی پہلوؤں پر بات کرنے اور متبادل نظریات کو سمجھنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لیے مختلف پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو غیر سیاسی رکھنے کی کوشش جاری رہتی ہے، اور حقیقی مسائل پر سے طلبہ کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان پلیٹ فارمز پر لمبی چوڑی تقریروں میں ہونے والے بحث و مباحث کا اصل مقصد طلبہ کو روشن مستقبل کے جھوٹے خواب دکھانا، ان میں انفرادیت پسندی کو پروان چڑھانا اور حقیقی مسائل کے خلاف ابھرنے والی طلبہ مزاحمت کو روکنا ہوتاہے۔
اس پروگرام میں ان صاحبان کا یہ کہنا تھا کہ ہم یوتھ کو فرنٹ پر لانا چاہتے ہیں اور ان کے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی بات کی گئی کہ سیاست طلبہ کو غلط راستے پر لے کر جارہی ہے اوروہ طلبہ میں فرسٹریشن پیدا کرتی ہے طلبہ کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ نوکری تلا ش کرنے کی بجائے سمال بزنس شروع کریں۔ اور معاشرہ خراب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ماں باپ بچوں کو گھر سے باہر بھیجتے ہیں اور انہیں گھر کے اندر رہنا چاہیے۔ ساتھ میں یہ بات کافی دفعہ دہرائی گئی کہ ہم خود کو ٹھیک کرلیں تو برائی ختم ہوجائے گی اور کم از کم سماج سے ایک ولن تو کم ہوگا۔ بیوروکریسی کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ اس کے علاوہ طلبہ کو محنت سے کام کرنا چاہیے، بولنے سے پہلے پڑھنا چاہیے، پڑھنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔ آپ ہی وہ یوتھ ہیں آپ میں سے ہی کوئی مستقبل میں کامیاب ہوگا۔ جو چیز آپ کے اختیار میں نہیں ہے اس کے بارے میں سوچیں بھی نہ، اور آپ کے تعلیمی ادارے میں جو بھی مسائل ہیں ان کا حل کتاب میں تلاش کریں۔ آپ لوگوں کو جم میں جانا چاہیے اور گراؤنڈ میں جانا چاہیے۔
جب ان کا سیشن ختم ہوا تو اگلا سیشن سوالات کا تھا۔ تمام طلبہ کو اجازت تھی کہ وہ سوال کریں۔ پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ اور پروگریسو یوتھ الائنس کی سر گرم کارکن مشعل وائیں نے ہال میں یہی ایک سوال کیا کہ پاکستان کو بنے 75 سال ہو گئے ہیں (اتنی بات سنتے ہی پینلسٹ نے اس کو ٹوکنا شروع کر دیا تھا۔ کہ اس کا اعتماد ختم ہو جائے اور وہ خاموش ہو جائے۔ لیکن اس نے اپنا سوال جاری رکھا) کہ آپ لوگ حکمران ہیں، آپ نے پاکستان کو اس حال میں پہنچا دیا ہے، کہ آج ہمارے پاس نہ گیس ہے، نہ پٹرول ہے، نہ زرِ مبادلہ ہے، نہ خوراک ہے۔ آج پاکستان جیسے زرخیز زرعی ملک کو گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ کپاس اور دالیں بھی باہر سے آ رہی ہیں۔ آٹے کے لیے لوگ قطاروں میں ہلاک ہو رہے ہیں اور پورا ملک بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اندھیرے میں ڈوبا پڑا ہے۔ اور کتنی دیر طلبہ سیاست سے دور رہیں اور آپ سیاست پر قابض رہیں؟ کب آئے گا وہ وقت کہ جب آپ آ کر طلبہ سے پوچھیں گے، کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے، ہمیں بتاؤ کہ یہ ملک اب کیسے بچانا ہے۔
اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کی کارکن کو ٹوک کر چپ کروانے کی کوشش کی گئی اور بعد میں ان سے مائیک چھین لیا گیا، مائیک چھیننے کے فوراً بعد سوالات کا سیشن یہ کہہ کر ختم کر دیا گیا کہ وقت کی کمی ہے اور اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ لیکن ہال میں بیٹھے ہوئے طلبہ نے دل کھول کر پی وائے اے کی کارکن کی حوصلہ افزائی کی اور ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔
اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کی کارکن نے دوبارہ بڑی مشکل سے ایک سوال پوچھنے کی اجازت لی۔ ”آپ سرمایہ داروں کے پاس تو یہ پلیٹ فارم موجود ہے ہمارے پاس ایک بھی پلیٹ فارم نہیں ہیں جہاں ہم اپنے مسائل پر بات چیت کر سکیں۔ ایک ہی پلیٹ فارم تھا طلبہ یونین کا، جس پر پابندی عائد کردی گئی ہے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس پابندی کی کیا وجہ ہے۔ اس سوال پر بھی ہال تالیوں سے گھونج اٹھا۔ مگر ان ”معزز“ صاحبان کی جانب سے اس سوال کا بھی کوئی معقول جواب نہیں دیا گیا اور ٹال مٹول کی بہت کوشش کی لیکن ہال میں بیٹھے ہوئے طلبہ کو مطمئن نہ کرسکے۔
طلبہ کی طرف سے پوچھے جانے والے ان سنجیدہ سوالات کو ٹوکنا اور ان کا کوئی جواب نہ دے پانا چیمبر آف کامرس اور اس جیسے دوسرے اداروں کی عوام دشمنی کا واضح اظہار ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ ان بڑے بڑے سرمایہ داروں اور سرکاری عہدیداروں کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے اور نہ ہی یہ سب ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں جو طلبہ، مزدوروں اور عوام کی بڑی اکثریت کو درپیش ہیں۔ بلکہ ان سب مسائل کے ذمے دار یہ لوگ اور ان کا یہ ناکام سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کوبچانے کے لیے یہ ہر قسم کا ہربہ استعمال کر رہے ہیں۔
مگر آج پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے۔ پاکستان کی معاشی حالت تمام لوگوں کے سامنے ہے۔ مہنگائی، بے روز گاری اور لوٹ مار اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں اور بنک دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ان سرمایہ داروں کی جانب سے نوجوانوں کو دکھائے جانے والے ترقی اور خوش حالی کے خواب محض سراب اور دھو کہ ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ نوجوان آج سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کریں تاکہ تباہی و بربادی اور ظلم و جبر پر مبنی اس نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ اکھاڑ پھینکا جائے۔