|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، گلگت|
فیسوں میں 50 فیصد کے ظالمانہ اضافے کے خلاف قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے طلبہ کی جراتمندانہ جدوجہد جاری ہے۔ پچھلے کئی ہفتوں سے سے ہزاروں طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ یونیورسٹی کیمپس کے اند اور باہر کئی احتجاج کیے گئے ہیں اور مطالبات کی منظوری تک کلاسز کا بائیکاٹ بھی جاری ہے۔
مطالبات کی منظوری کے بجائے ان احتجاجوں کی پاداش میں طلبہ دشمن اور کرپٹ انتظامیہ بالخصوص وائس چانسلر کی جانب سے احتجاجی طلبہ پر شدید کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ نے درجنوں طلبہ کو معطل بھی کیا ہے اور اس احتجاجی تحریک سے خوفزدہ ہو کر جھوٹے مقدمات بنا کر طلبہ کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
لیکن احتجاجی تحریک مسلسل شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر احتجاجوں میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اسی سلسلے میں 2 اکتوبر کو یونیورسٹی میں احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ انتظامیہ نے 3 اکتوبر کو احتجاجی ریلی منظم کرنے والے 10 طلبہ کے داخلے منسوخ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ اس کے خلاف پھر 4 اکتوبر کو سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ نے احتجاج کیا۔
اسی اثناء میں یونیورسٹی کی سیکیورٹی فورسز نے مزید طلبہ کو یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک دیا اور پر امن احتجاج کرنے والے 2 طالب علموں کو تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔
یہ کھلی بدمعاشی اس بات کا اظہار ہے کہ آج بھی بالعموم پورے ملک اور بالخصوص گلگت بلتستان میں کالونیل ریاست موجود ہے جو انگریز راج کی طرح عوام کو اپنا غلام سمجھتی ہے۔
تاہم اب انتظامیہ کے اس طلبہ دشمن کردار اور فیسوں میں اضافے کی واپسی کے لیے یونیورسٹی کے مین گیٹ کے باہر احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے اخراجات بڑھنے کی وجہ سے فیسوں میں اضافہ کرنا ان کی مجبوری ہے۔ یہاں ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ ان اخراجات کو کم کرنے کیلئے وائس چانسلر سمیت کیمپس میں موجود غیر ضروری سیکورٹی کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جا رہا؟
پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور انتظامیہ کے طلبہ دشمن رویے کی مذمت کرتا ہے۔
پی وائی اے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے کارکنان طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ان احتجاجوں کو منظم کرنے میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی پاداش میں وائس چانسلر کی ایماء پر غیر قانونی طور پر پی وائی اے کے سابقہ کارکن تجمل حسین کو گرفتار بھی گیا تھا۔بہر حال تب طلبہ اور محنت کشوں نے زبردست احتجاجی تحریک کی بدولت تجمل کو رہا کروا لیا۔
ہم انتظامیہ اور ریاست کے کسی بھی ہتھکنڈے سے ڈرنے والے نہیں، گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں ان طلبہ کی آواز بلند کریں گے۔
پروگریسو یوتھ الائنس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ:
1- جن طلبہ کے داخلے منسوخ کیے گئے ہیں انہیں فی الفور بحال کیا جائے۔
2- فیسوں میں اضافہ فی الفور واپس لیا جائے۔
3- کیمپس میں موجود غیر ضروری سیکورٹی کا خاتمہ کیا جائے۔
4- یونیورسٹی کے فنانشل کھاتے سب کے سامنے اوپن کیے جائیں۔
5- طلبہ یونین بحال کر کے فی الفور کے آئی یو میں یونین کے الیکشن کرائے جائیں۔
اس وقت صرف کے آئی یو میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
اس تمام جبر سے نجات طلبہ کی ایک ملک گیر منظم جدوجہد کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے۔ اسی کے ذریعے نہ صرف ہم اپنے مفت تعلیم کے بنیادی حق کو حاصل کر سکتے ہیں بلکہ طلبہ یونینز کو بھی بحال کروا کر طلبہ کو درپیش دیگر مسائل کا تدارک کر سکتے ہیں۔ لہٰذا طلبہ کو ہر کلاس اور ڈیپارٹمنٹ سے جمہوری طور پر نمائندے چن کر طلبہ کی منتخب شدہ ایکشن کمیٹی تشکیل دینی ہو گی اور منظم جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا۔
جس طرح کے آئی یو کی انتطامیہ فیسوں میں اضافے کی وجہ اخراجات میں اصافے کو قرار دے رہی ہے ویسے ہی پاکستان کے حکمران بالعموم مہنگائی اور بالخصوص بنیادی ضروریات جیسے تعلیم اور صحت کے مہنگے ہونے کا بھی یہی جواز بنا رہے ہیں۔ مگر عین اسی بحران کے دوران تمام حکمرانوں کی دولت اور عیاشیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مہنگائی اس لیے بڑھتی ہے کیونکہ مٹھی بھر سرمایہ داروں، جاگیرداروں، بینکاروں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مٹھی بھر جونکیں اکثریتی محنت کش طبقے کی محنت سے پیدا کی گئی دولت کو لوٹ کر امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں۔ چونکہ معیشت پر ان کا کنٹرول ہے لہٰذا سیاست پر بھی انہی کا کنٹرول ہے۔ اسی لیے ملک کی تمام تر معاشی پالیسیاں بھی یہ اپنے مفادات کے تحت ہی بناتے ہیں۔ لہٰذا اس وجہ سے آج طلبہ کو اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ مستقبل میں کوئی سیاسی پارٹی یا مسیحا ان کے حالات بہتر کرے گا۔ تمام سیاسی پارٹیاں حکمران طبقے کی پارٹیاں ہیں۔ مستقبل میں جوں جوں معاشی بحران بڑھتا جائے گا ویسے ہی حکمران اس کا بوجھ محنت کش عوام اور طلبہ پر ڈالتے جائیں گے۔ یعنی کہ فیسیں مزید بڑھیں گی!
لہٰذا مہنگائی، بیروزگاری سمیت دیگر مسائل کے خلاف طلبہ اور محنت کشوں کو خود منظم جدوجہد کرنا ہوگی۔ بہرحال جب تک سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے منصوبہ بند معیشت یعنی سوشلسٹ نظام نہیں لایا جاتا، کوئی بھی مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوگا بلکہ وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔ لہٰذا آج تمام طلبہ اور نوجوانوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کیلئے جدوجہد کا حصہ بننا ہوگا۔
پروگریسو یوتھ الائنس پاکستان کی سوشلسٹ انقلاب کیلئے جدوجہد کر رہا ہے اور ترقی پسند طلبہ و نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کر رہا ہے۔ ہم کے آئی یو کے طلبہ کو دعوت دیتے ہیں آئیں پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بنیں اور اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل ہے!