فیصل آباد: پہلے ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، فیصل آباد|

اتوار، 30 جون 2019ء کو ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد رحیم گارڈن میں ہوا۔ سکول دوسیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن عالمی و پاکستان تناظر پر تھا جسے کامریڈ عثمان ضیاء نے چیئر کیا اور تفصیلی بات کامریڈ تصور نے کی۔ دوسرا سیشن انقلاب فرانس پر تھا جسے کامریڈ بابو ولیم نے چیئر کیا اور اس پر تفصیلی بات کامریڈ عبداللہ نے دی۔

پہلے سیشن میں کامریڈ تصور نے عالمی و پاکستان تناظر پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی دنیا 2008 کے عالمی معاشی بحران کے معاشی اور سیاسی اثرات سے باہر بھی نہ نکلی تھی کے ایک اور مزید گہرے بحران کی نوید سنائی جارہی ہے۔ سرمایہ داری کے تمام معذرت خواہان کے ’بحالی‘ کے دعوے جھوٹے ہیں اور اگر کہیں معاشی اعشاریے تھوڑے بہت بہتر ہوئے بھی ہیں تو وہ بھی اس قابل نہیں کے ان سے کوئی بحالی کی امید لگائی جاسکے۔ آج سرمایہ داری کا بحران اتنا گہرا ہے کے امریکہ جیسا ماضی کا لبرل ائزیشن اور گلوبل ائزیشن کا علمبردار، آج تحفظاتی پالیسیاں اپنانے پر مجبور ہے، جس کی وجہ سے پوری کی پوری عالمی معیشت اور تجارتی ذرائع کی ساخت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یورپی یونین کا شیرازہ بکھرنے کے قریب ہے، چائنہ جس سے امیدیں باندھی جارہیں تھیں اس غبارے سے بھی ہوا نکلتی محسوس ہو رہی ہے۔ اس تمام تر عالمی معاشی گراوٹ کے اثرات سیاسی میدان میں بھی نظر آرہے ہیں۔ بورژوا دانشوروں کی دانش جواب دے چکی ہے، ان کے پاس سوائے مایوس ہونے کے کوئی آپشن نہیں رہی۔ جب عالمی میدان میں بڑی بڑی معیشتیں نامیاتی بحران کا شکار ہیں تو پھر ایسے میں پاکستان جیسے ملک کی کیا حالت ہو گی؟ جو اپنے جنم سے ہی عالمی سامراجی ممالک کے رحم و کرم پر ہے۔

کامریڈ تصور ایوب کی تفصیلی بات کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور لوگوں نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ کامریڈ عبداللہ نے بحث میں لیتے ہوئے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری پر روشنی ڈالی۔ بابو ولیم نے ایسے حالات میں ایک انقلابی پارٹی کی اہمیت پر بات کی۔ کامریڈ عثمان ضیاء نے دلچسپ مثالوں کی مدد سے پاکستان کے حکمران طبقہ کہ کی تاریخی پسماندگی اور تاخیرزدگی پر بات رکی۔ کامریڈ تصور ایوب نے تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں پاکستان کی مزدور تحریک کی حرکیات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو کسی صورت بھی جامد نہیں بلکہ اس میں آئے روز مقداری اور معیاری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

دوسرا سیشن جو انقلاب فرانس پر مبنی تھا، پر کامریڈ عبداللہ نے تفصیلی بات کی جبکہ اس سیشن کو چیئر کامریڈ بابو ولیم نے کیا۔ کامریڈ عبداللہ نے انقلاب فرانس سے پہلے فرانس کے معاشی و سیاسی حالات پر بات کا آغاز کیا۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ سرمائے کے ابتدائی ارتکاز کے ساتھ کس طرح نوزائیداہ بورژوازی کا جنم ہوا، جس کے معاشی مفادات کا کلیسا اور بادشاہت کی سیاسی طاقت کے ساتھ ٹکراؤ ناگزیر تھا اور کس طرح انسانی تاریخ کا یہ عظیم واقعہ پرپیچ راستوں سے منزل تک پہنچا۔

دوسرے سیشن میں کامریڈ عبداللہ کی تفصیلی بات کے اختتام پرسوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کو مدں طر رکھتے ہوئے کامریڈ تصور نے بحث میں حصہ لیا۔ انہوں نے بات کرتے ہوئے انقلاب فرانس کے متعلق پائے جانے والے عام مغالطوں پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اپنے کردار اور انجام میں انقلاب فرانس ایک بورژوا جمہوری انقلاب تھا، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کے اسے صرف اور صرف بورژوازی نے کیا۔ بلکہ ہر انقلاب کی طرح اس انقلاب کی خاصیت بھی اس کے ہر مرحلہ پر عوام کی شعوری مداخلت ہی تھی۔ ہر بار آگے کا قدم عوام نے اٹھایا جبکہ بوژوازی ہر مرحلہ پر بادشاہت کے ساتھ سمجھوتہ کرنا چاہ رہی ہوتی تھی۔ اگر آج ہم اکیسویں صدی میں جب سرمایہ داری کے خاتمے کا ہتھیار تیار کر رہے ہیں تو ہمارے سکول میں ایک ایسا واقعہ جس سے دنیا میں سرمایہ داری کا جنم ہوا کو زیر بحث لانا اپنے آپ میں یہ ثابت کرتا ہے کے ہم قطعی طور پر تاریخ کو عملیت پسندانہ نظر سے نہیں دیکھتے۔

آخر میں کامریڈ عبداللہ نے تمام تر بحث کو سمیٹ کر سکول کا باقاعدہ اختتام کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.