فلم ری ویو: دی وِنڈ دیٹ شیکس دی بارلے(The wind that shakes the barley)

 

 

1920ء کی دہائی میں برطانوی راج سے آئرلینڈ کی جنگِ آزادی اور بعد ازاں آئرش خانہ جنگی پر بنائی گئی یہ فلم 2006ء میں ریلیز کی گئی، جسے کافی پذیرائی ملی اور کینز فلم فیسٹیول میں ’پالم دی او‘ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اسے ٹراٹسکائیٹ نظریات کے حامل برطانوی ڈائریکٹر کین لوچ نے ڈائریکٹ کیاہے، جو اپنی فلموں میں نظریاتی، سیاسی اور سماجی مسائل اور بحث مباحثوں کو اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ ناظرین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ اس فلم کا مرکزی کردار مشہور فلمی ستارے کیلین مرفی نے نبھایا ہے، جو آج کل بی بی سی کی کرائم تھریلر سیریز ’پیکی بلائنڈرز‘ میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ مرفی سمیت دیگر اداکاروں اور اداکاراؤں کا تعلق پیدائشی طور پر آئرلینڈ سے ہے اور سب نے مل کر بہت با کمال اداکاری کی ہے، جسے دیکھ کر آنکھیں دھوکہ کھا جاتی ہیں اور سکرین پر نظر آنے والا سب کچھ حقیقت محسوس ہوتا ہے۔

فلم کا آغاز آئرلینڈ میں برطانیہ کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے دور سے ہوتا ہے، جب اس جنگ میں مہم جُو آئرش ریپبلکن آرمی بھی متحرک تھی۔ کیلین مرفی کا کردار ڈیمین نامی ایک ڈاکٹر کا ہوتا ہے جو لندن کے ہسپتال میں نوکری کرنے جا رہا ہوتا ہے مگر اپنے ملک میں غیر ملکی فوج کے مظالم دیکھ کر یہ ارادہ ترک کر کے آئی آر اے میں شمولیت اختیار کر لیتا ہے۔ اس فوج میں ڈیمین کا بھائی ٹیڈی بھی شامل ہوتا ہے اور وہ اپنے گاؤں کے دوستوں کے ساتھ ایک ہی یونٹ میں مختلف مہم جوئیاں سر انجام دیتے ہیں، جن میں وہ برطانوی فوج کے ہیڈ کوارٹرز اور قافلوں پر اچانک حملہ کر کے ان کے ہتھیار اپنے قبضے میں لیتے ہیں۔ آخرکار اینگلو آئرش معاہدے کے تحت حکومت کی جانب سے فیصلہ سنا دیا جاتا ہے کہ شمالی آئرلینڈ پر برطانوی قبضہ برقرار رہے گا جبکہ باقی حصّے کو آزادی دے دی جائے گی۔ اس فیصلے پر آئی آر اے کے اندر اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں، جن میں سے بعض جنگ کو آخر تک لڑ کر متحدہ آئرلینڈ کے حق میں ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کے اندر سوشلسٹ اصلاحات بھی چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسرا گروہ مقامی زمینداروں اور سرمایہ داروں کا نمائندہ بن کر سامنے آ جاتا ہے، جس سے خانہ جنگی جنم لیتی ہے۔

اس فلم کے بہت سے سین نظریاتی بحثوں کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ مثلاً آزادی پسندوں کے مفتوحہ علاقے میں لگنے والی عدالت کا منظر اہم ہے جب ایک سود خور سرمایہ دار اور ایک مریض بڑھیا کا مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے لیکن آزادی پسندوں کا لیڈر اپنی ہی عدالت کا احترام پس پشت ڈالتے ہوئے سرمایہ دار کو تحفظ دیتا ہے اور یہ جواز پیش کرتا ہے کہ ہمیں اپنی لڑائی کے لیے اس کے پیسے کی ضرورت ہے۔ یہیں سے نظر آتا ہے کہ آزادی پسندوں کے اس گروہ کا نظریہ کیا ہے اور دوسرایہ کہ اپنے ہی بنائے ہوئے اداروں کو اگر قیادت پامال کرے تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح سوشلزم کے حوالے سے بھی بحثیں شامل ہیں اور ریلوے کی یونین کے ایک ممبر کا کردار انتہائی اہم بحثیں کرتے نظر آتا ہے۔

ڈیمین انقلابی اصلاحات اور مکمل آزادی کے حق میں ہوتا ہے جبکہ اس کا بھائی ٹیڈی اس کی مخالفت کرتا ہے اور نئی آئرش فوج میں شامل ہو جاتا ہے۔ گرفتار ہو کر ڈیمین سزائے موت سے پہلے اپنی محبوبہ کو خط لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ”یہ جاننا آسان ہوتا ہے کہ آدمی کس کے خلاف لڑ رہا ہے، مگر اس بات کا علم ہونا ذرا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس چیز کے لیے لڑ رہا ہے“۔ فلم میں آزادی کے سوال پر دو بھائیوں کے فرضی کرداروں کا ایک دوسرے کے مخالف ہو جانا اس حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہ اس جنگ میں کس طرح سے ایک ساتھ لڑنے والے بالآخر ایک دوسرے کے مخالف بن گئے۔ اس کی وجہ دراصل اس گروہ کی نظریاتی کم فہمی تھی جو آدھے رستے میں مقامی ظالموں کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اس کو آزادی سمجھنے لگا۔ جس طرح کہ فلم کا ایک کردار کہتا ہے کہ ”اس آزادی کا مطلب ظالموں کا زبانی لہجہ اور جھنڈے کا رنگ تبدیل ہونے کے علاوہ کچھ نہیں“۔ اس فلم کے دیکھنے والے جنگی مناظر سے محظوظ ہونے کے ساتھ انتہائی اہمیت کی حامل سیاسی مباحثوں اور تاریخی اسباق سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قومی آزادی کی جنگ میں سوشلسٹ نظریات کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے اوریہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان اہم نظریات سے روگردانی اور سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کو تسلیم کرنے سے آزادی پسند اقتدار ملتے ہی سامراجی طاقتوں کے گماشتے ہی بن جاتے ہیں اور اسی طرز پر دوبارہ مظالم کا آغاز کر دیتے ہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.