برصغیر کی تاریخ برطانوی سامراج کے مظالم کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف جدوجہد کرتے انقلابیوں کی قربانیوں سے بھی بھری پڑی ہے۔ انقلابیوں کی اس فہرست میں بھگت سنگھ کے ہم عصر اور ساتھی سردار اُدھم سنگھ کا نام بھی شامل ہے۔ اُدھم سنگھ نے 1919ء میں جلیانوالہ باغ کے وحشیانہ قتلِ عام کے بعد کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، جب آزادی پسند رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف نکالے گئے پرامن عوامی جلوس پر براہِ راست بے دریغ گولیاں چلائی گئیں۔ حکمران طبقے کو اس تحریک کے دیگر علاقوں تک پھیل جانے کا خوف تھا اور جلیانوالہ باغ میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے جنرل ڈائر کی سربراہی میں مسلح دستوں کو بھیجا گیا تھا۔ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈوائیر نے جنرل ڈائر کو گولیاں چلانے کی اجازت دی جس نے خبردار کیے بغیر نہتے مظاہرین کا قتلِ عام شروع کیا جن میں بوڑھے، خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔ جنرل ڈائر نے بعد میں خود تسلیم کیا کہ اس کے دستوں نے 1 ہزار 650 گولیاں فائر کی تھیں، جبکہ مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ 379 سے لے کر 1500 سے زائد کا لگایا جاتا ہے۔
اُدھم سنگھ اگرچہ موقع پر وہاں موجود نہیں تھا مگر بعد میں وہاں آ کر اس نے لاشوں اور زخمیوں کے ہجوم کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وہ بغیر وقفہ کیے زخمیوں کو طبی امداد کے لیے منتقل کرتا رہا۔ ’سردار اُدھم‘ اسی کی زندگی پر بنائی گئی فلم ہے جو اکتوبر 2021ء میں ایمازون پر ریلیز ہوئی۔ اُدھم سنگھ کا کردار دراصل عرفان خان نے نبھانا تھا مگر طبعیت کی ناسازی کے باعث وہ فلم کا حصہ نہیں بن سکا تھا، اور بعد میں وکی کوشل کو کردار نبھانے کی پیشکش ہوئی۔
فلم میں اُدھم سنگھ کی ابتدائی سیاسی زندگی، جب وہ بھگت سنگھ کے ساتھ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلک ایسوسی ایشن میں سرگرم تھا، سے لے کر اس کے آخری ایام تک کی کہانی شامل ہے جب اس نے لمبے عرصے تک صبر کے ساتھ منصوبہ بندی کر کے جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کا حکم جاری کرنے والے مائیکل او ڈوائیر سے انتقام لیتے ہوئے اسے لندن میں قتل کیا۔ اس دوران وہ او ڈوائیر کے ساتھ ملازمت بھی اختیار کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اسے اپنے کیے کا کوئی بھی پچھتاوا نہیں ہوتا۔ جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام اور اس کے بعد کے مناظر کی بھی تفصیلاً اور حقیقی منظر کشی کی گئی ہے، جسے دیکھتے ہوئے ناظرین پر رِقّت طاری ہو جاتی ہے۔
31 جولائی 1940ء کو قتل کے جرم میں اُدھم سنگھ کو پھانسی دی گئی۔ فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ پھانسی کے وقت اس نے اپنی مٹھی میں بھگت سنگھ کی تصویر دبائی ہوتی ہے۔ وہ او ڈوائیر کے قتل کو محض ذاتی انتقام نہیں بلکہ عوام میں تحرک پیدا کرنے کی چنگاری سمجھتا ہے۔ مگر انقلاب کسی شخص کی ذاتی خواہشات کے تحت نہیں ابھر سکتا، اس کے لیے مخصوص حالات درکار ہوتے ہیں۔ انقلابیوں کا فریضہ ان مخصوص حالات سے قبل محنت کشوں اور با شعور نوجوانوں پر مبنی انقلابی پارٹی کا قیام ہوتا ہے تاکہ وقت آنے پر عوامی بغاوت کی درست رہنمائی کی جا سکے۔ آج برطانوی سامراج تو برصغیر چھوڑ کر جا چکا ہے مگر سامراجی اور استحصالی نظام اب بھی رائج ہے، جس کا خاتمہ کرنے کے لیے ہمیں درست نظریات سے لیس ہو کر اُدھم سنگھ اور بھگت سنگھ کے انقلابی ورثے کو آگے لے جانا ہوگا۔