فلم ری یو: ماڈرن ٹائمز

 

1936ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں چارلی چیپلن نے بیک وقت مصنف، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور اداکار کے فرائض سر انجام دیے ہیں۔ اس میں بیسویں صدی کی جدید دنیا کی انتہائی ستم ظریفانہ انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ مگر مزاح کے پردے کے پیچھے روزمرہ کے تلخ حقائق بھی بہت ہی فنکارانہ انداز میں دکھائے گئے ہیں۔ اس میں چارلی چیپلن نے ایک محنت کش کا کردار نبھایا ہے جس کو پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر ہر وقت شدید مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ نازی جرمنی میں اس فلم پر یہ کہہ کر پابندی لگائی گئی تھی کہ یہ کمیونزم کی وکالت کرتی ہے۔

یہ فلم 1930ء کی دہائی کی عظیم کساد بازاری(The Great Depression) کے دور میں ریلیز کی گئی تھی جس کا اظہار فلم میں دکھائے گئے محنت کش طبقے کی بڑے پیمانے پر بیروزگاری اور ہڑتالوں وغیرہ سے ہوتا ہے۔ فیکٹری کے اندر کے کام کے حالات پر مبنی ابتدائی مناظردنیا بھر کی فلم کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور انتہائی کم وسائل سے انتہائی شاندار مناظر فلمائے گئے ہیں۔ خاص طور پر مزدوروں کے کام کی رفتار میں اضافہ کر کے سرمایہ دار کیسے ان کا استحصال بڑھاتا رہتا ہے اور پھر چارلی چیپلن کس طرح مشین کے ساتھ مشین کا پرزہ بن جاتا ہے، بہت ہی عمدہ انداز میں فلمائے گئے ہیں جنہیں جتنی دفعہ دیکھیں مزہ دوبالا ہی ہوتا ہے۔ ان میں دکھایا گیا ہے کہ کارخانوں کے اندر محنت کشوں کو کس طرح شدید استحصال کا شکار کرنے کے بعد بھی مالکان ان سے کم وقت میں زیادہ کام لینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ فلم میں بہت خوبصورت انداز میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ دکانوں اور گوداموں میں اشیاء کی کثرت ہوتے ہوئے بھی ان سے باہر ہر طرف محرومی اور قلت پائی جاتی ہے، جبکہ محنت کش کس طرح اپنے خواب میں دودھ اور خوراک کی فراوانی کے سہانے منظر دیکھتا ہے۔ امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم بھی فلم میں واضح نظر آتی ہے اور پولیس کا مزدور دشمن کردار بھی واضح ہے۔ اس فلم کا اختتام انتہائی اہم ہے جس میں مایوسی کی بجائے جدوجہد کے ذریعے مسلسل آگے بڑھنے کا پیغام دیا گیا ہے۔ انتہائی مشکل ترین حالات اور زمانے کے بد ترین مظالم کے باوجود فلم کا مرکزی کردار مایوس نہیں ہوتا بلکہ جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔

مختصر یہ کہ اگر آپ کارل مارکس کے نظریہ بیگانگی، زائد پیداوار کے بحران، جدید دنیا کے ظلم و استحصال اور مستقبل کے بارے میں نچلے طبقوں کی حسرتوں اور تمناؤں کے امتزاج، الغرض موجودہ دنیا کی حقیقی منظر کشی دیکھنا چاہیں، تو آپ کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہئیے۔ بلیک اینڈ وائٹ اور خاموش ہونے کے باوجود بھی دیکھنے والوں کو نہ اس فلم میں رنگ کی کمی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی ڈائیلاگ کی، بلکہ اس کے برعکس ہر سین چہرے پر مسکراہٹ لا کر سوچنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.