|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|
اسلامیہ یونیورسٹی میں سپرنگ کے داخلوں کا آغاز ہو چکا ہے مگر اس میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے کوٹہ کی بنیاد پر کیے جانے والے داخلوں کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ پنجاب کی ہر گورنمنٹ یونیورسٹی کے ہر سمسٹر میں فاٹا اور پشتونخواہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے چار سیٹوں پر مشتمل کوٹہ مختص کیا جاتا ہے۔ مگر اسلامیہ یونیورسٹی میں پہلے اس کوٹہ کو کم کر کے دو سیٹوں تک محدود کیا گیا اور پچھلے کئی سالوں سے یونیورسٹی انتظامیہ یہ دو سیٹیں دینے کے لیے بھی کبھی آمادہ نہیں ہوئی اور کوٹہ کی یہ دو سیٹیں بھی طلبہ ہمیشہ اپنے احتجاجوں کے ذریعے ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ان ریزرو سیٹوں کے لیے پشتونخواہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ دو سال پہلے گورنر ہاؤس لاہور تک مارچ بھی کر چکے ہیں۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کوٹہ کی سیٹوں کے نام پر ہمیشہ طلبہ کے ساتھ کھلواڑ کرتی رہی ہے اور کوٹے کی سیٹوں کو کم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ انتظامیہ کبھی ان سیٹوں کو ایک لڑکا اور ایک لڑکی کے لیے سیٹ پر تقسیم کر کے اور کبھی کچھ ڈیپارٹمنٹس کا کوٹہ رحیم یار خان اور بہاولنگر کیمپس میں تقسیم کر کے کوٹہ کی بنیاد پر داخلوں کی تعداد کو کم کرتی رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ پہلے ہر سمسٹر میں تقریباً ایک سو بیس کے لگ بھگ طلبہ اس مختص کوٹہ کے ذریعے داخلہ لیتے تھے مگر پچھلے سمسٹر میں صرف بیس کے لگ بھگ طلبہ کا داخلہ ہوا ہے۔
یونیورسٹی میں موجودہ سمسٹر میں داخلے شروع ہو چکے ہیں اور ایک ماہ بعد مِڈ ٹرم امتحان شروع ہونے والے ہیں مگر کوٹہ کی بنیاد پر کیے جانے والے داخلوں کا ابھی تک کوئی اشتہار نہیں آیا ہے جس پر پشتون طلبہ بے حد مشتعل ہیں۔ طلبہ کے غصے سے مجبور ہو کر پشتون کونسل نے دو بار انتظامیہ سے ملاقات کی مگر انتظامیہ ہر بار جھوٹ بول کر انہیں رخصت کر دیتی ہے اور کونسل احتجاج یا دھرنا دینے کی بجائے پھر سے مذاکرات کا راستہ چنتی رہی ہے۔ مگر گزشتہ روز فاٹا کے طلبہ نے بغداد کیمپس کے مرکزی گیٹ پر دھرنا دیا اور اپنے حق کے حصول کے لیے احتجاجی کیمپ کا آغاز کیا۔
آج کی اطلاعات کے مطابق صبح یونیورسٹی انتطامیہ کی جانب سے طلبہ کے احتجاجی کیمپ پہ یونیورسٹی گارڈز کے ذریعے حملہ کیا گیا۔ گارڈز نے احتجاجی کیمپ کو اکھاڑ پھینکا اور طلبہ پر تشدد بھی کیا گیا۔ احتجاج کرنے والے طلبہ میں سے تین طلبہ کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی اور باقی سب کو ایکسپل کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اس میں واضح رہے کہ یونیورسٹی کے وی سی نوید اختر نے صاف صاف الفاظ میں ایکس فاٹہ کا کوٹہ مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ اپنی مالی کرپشن اور مراعات کا سارا بوجھ طلبہ پر ڈال رہی ہے۔ اگر زمینی حقائق کی بات کی جائے تو یونیورسٹی اس وقت دیوالیہ ہو چکی ہے اور اس بات کا اندازہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے بیان سے ہو جاتا ہے جو یہ کہہ رہا ہے کہ ہمارے پاس صرف مئی کے مہینے تک کی تنخواہوں کے پیسے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھرپور یکجہتی کرتا ہے اور اپنے حق کے لیے لڑنے پر انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ ہم یونیورسٹی انتظامیہ کو خبردار کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ نہ صرف فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا یونیورسٹی میں کوٹہ فی الفور بحال کیا جائے بلکہ طلبہ کو احساس اسکالر شپ بھی جلد از جلد مہیا کی جائے جس کے لیے گزشتہ دنوں طلبہ احتجاج کر رہے تھے۔ طلبہ کے اس احتجاج کی رپورٹ پرھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ہم حکومتِ وقت سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے فاٹا کے اندر یونیورسٹی کی تعمیر کو عمل میں لایا جائے۔ فاٹا کے نوجوانوں کے لیے فاٹا کے اندر یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے ایک تو فاٹا کی بھاری اکثریت تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم رہ جاتی ہے اور دوسرا طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو یہ پیغام دیتا ہے کہ انہیں اپنی اس لڑائی کو جیتنے کے لیے اپنی قوت میں اضافہ کرنا ہو گا جس کے لیے انہیں یونیورسٹی کے تمام طلبہ سے حمایت کی اپیل کرنی ہو گی۔ یونیورسٹی کے تمام طلبہ ہر قسم کی تفریق سے بالا تر ہوتے ہوئے متحد ہو کر نہ صرف موجودہ مطالبات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ طلبہ اتحاد کے ذریعے طلبہ بڑھتی فیسوں کے خلاف، ہاسٹلوں کے مسائل، ٹرانسپورٹ کے مسائل کے خلاف، ہراسانی اور انتظامیہ کی غنڈہ گردی کے خلاف نہ صرف لڑ سکتے ہیں بلکہ اپنی اس لڑائی کو جیت بھی سکتے ہیں۔ طلبہ کو ان مسائل کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لیے اپنے اداروں میں طلبہ پر مشتمل منتخب شدہ ایکشن کمیٹیاں تشکیل دے کر طلبہ یونین کی بحالی کی جانب بڑھنا ہو گا۔
پروگریسو یوتھ الائنس بھی یونیورسٹی کے تمام طلبہ کو بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ لڑائی صرف فاٹا کے طلبہ کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یونیورسٹی میں موجود ہر طالبعلم کی لڑائی ہے اور یہ لڑائی صرف یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی یہاں کے حکمران طبقے کے ساتھ بھی لڑائی ہے جو اپنی عیاشیوں اور تعلیمی نظام کے بحران کا بوجھ طلبہ پر ڈال رہے ہیں۔ طلبہ کو ’ایک کا دکھ، سب کا دکھ‘ کے نظریے کے تحت یک جان ہو کر یونیورسٹی انتظامیہ کے ہر تعلیم دشمن اور طلبہ دشمن حملے کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ طلبہ کا اتحاد ہی وہ واحد طاقت ہے جس کے ذریعے یونیورسٹی انتظامیہ اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کیا جا سکتا ہے۔
جینا ہے تو لڑنا ہو گا!