سارا سماج غربت، جہالت، لاعلاجی، بیروزگاری اور مہنگائی کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ ملکی معیشت عملاً دیوالیہ ہو چکی ہے، صرف اعلان کرنا باقی ہے۔ حکمرانوں سے سوال کریں تو وہ آئی ایم ایف سے ممکنہ ڈیل کی نوید سنا دیتے ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تمام نام نہاد جمہوری پارٹیاں اس وقت حکمران اتحاد کاحصہ ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ وہ اس دیوالیہ معیشت سے بھی زیادہ سے زیادہ نچوڑ لینے کی ہوس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ عدلیہ اور فوج سمیت تمام ادارے یا تو ان کے براہِ راست معاون ہیں یا بالواسطہ ایک یا دوسرے ذریعے سے اپنا حصہ وصولنے یا بڑھانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ نام نہاد حزبِ مخالف یعنی تحریکِ انصاف ہر مسئلے کا حل انتخابات کو قرار دے رہے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گزشتہ مہینوں میں جمہوریت کی نائیکہ جس طریقے سے بے نقاب بلکہ عریاں ہوئی ہے، جدید تاریخ میں شاید ہی اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ نے اشرافیہ کی باہمی لڑائی میں جو غلیظ ترین پسِ پردہ موسیقی پیش کی ہے اس سے یہ فلم بری طرح فلاپ ہو چکی ہے۔
دیسی دانشور کوئی سنجیدہ متبادل پیش کرنے کی بجائے اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مسلسل مایوسی کا زہر گھول رہے ہیں۔ ان کی اکثریت بین الاقوامی پیمانے پر عالمی جنگ اور داخلی سطح پر خانہ جنگی کے تناظر پر ایمان لاچکی ہے اور اپنے متاثرین کو اس تناظر کو قبول کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اس میں صرف لبرل دانشور شامل نہیں ہیں بلکہ نام نہاد بائیں بازو کی پارٹیاں اور ان کے مہان سربراہان بھی سرِ فہرست ہیں۔ اس شکست خوردہ، اخلاق باختہ اور مردہ ضمیر بائیں بازو کا پاکستان کے محنت کش طبقے کی مزاحمتی صلاحیت سے تو اعتماد کب کا اٹھ ہی چکا تھا، اب یہ نوجوان نسل سے ہی بالعموم دلبرداشتہ ہو چکے ہیں اور ان کے خیال میں پاکستان کے نوجوان کسی بھی قسم کا ترقی پسندانہ یا انقلابی کردار ادا کرنے کے اہل ہی نہیں۔ اس لیے یہ دانشور خواتین و حضرات خود تو اشرافیہ کی کاسہ لیسی میں اپنے آبا ء و اجداد کے سابقہ ریکارڈ توڑ ہی رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ نئی نسل کو بھی اطاعت اور غیر مشروط غلامی کا درس دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں جنگ، قحط، خانہ جنگی، افراتفری سب کچھ ممکن ہے مگر جو ناممکن ہے، وہ ہے انقلاب۔ یہ لوگ ایران، سری لنکا سمیت دنیا بھر میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں کو اول تو تسلیم ہی نہیں کرتے اور اگر کریں بھی تو ان کی کمزوریوں اور ناکامیوں کا اتنا اور اس لیے ڈھنڈورا پیٹتے ہیں تا کہ پاکستان کے نوجوان مزید مایوسی کی دلدل میں غرق ہو جائیں اور ان عقل کے اندھوں کو ہی مہان مان کر ان کی داد و توصیف میں لگے رہیں اور ان کی دکان چلتی رہے۔
مگر ان مایوس دانشوروں کی توقعات اور تجزیوں کے برعکس پاکستان کے نوجوان اور بالخصوص طالبِ علم اتنے رجعتی، ردِ انقلابی اور لکیر کے فقیر نہیں ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں نوجوانوں نے ریاستی جبر اور دہشت گردی کے خلاف بھی مزاحمت کی ہے اور مسلسل بڑھتی ہوئی فیسوں اور ہراسمنٹ جیسے سنگین مسائل کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے۔ مگر کوئی ملک گیر لڑاکا پلیٹ فارم میسر نہ ہونے کے باعث وقتی طور پر نوجوانوں میں مایوسی کا عنصر غالب نظر آ رہا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں جہاں ایک طرف ڈپریشن اور خود کشیوں کا رجحان بڑھا ہے، وہیں ملک سے فرار کی نفسیات بھی غالب آئی ہے مگر یہ کوئی مستقل اور دیرپا مظہر نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ برس ساڑھے سات لاکھ نوجوان ملک سے ہجرت کر گئے ہیں مگر دوسری طرف ابھی بھی لاکھوں نوجوان ملک کی جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں اس وقت کالجوں اور سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں اور اتنی ہی تعداد میں مسلسل مہنگی ہوتی ہوئی تعلیم سے محروم ہو کر محنت کی منڈی میں بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ منشیات اور جرائم کی منڈی کا حجم بھی بڑھا ہے مگر دوسری طرف ان تمام رجحانات پر سنجیدہ تنقید بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ نوجوانوں کی بھاری اکثریت حکمران طبقات کے ان تماشوں سے اہم اسباق اخذ کر رہی ہے۔ حکمران طبقات اور ان کے نمائندہ سیاستدان بھی اپنی داخلی لڑائیوں میں سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو ننگا کر رہے ہیں۔ نوجوان یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ملک کی اس دیوالیہ حالت کی ذمہ دار یہاں کی فوجی و سول اشرافیہ ہے مگر اس کا تمام تر بوجھ غریب عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ اور یہ تمام دانشور اسی اشرافیہ کے ایک یا دوسرے دھڑے کے دلال ہیں۔ اپنی تمام تر مایوسی اور بدظنی کے باوجود نوجوانوں کا اجتماعی شعور یہاں کی وظیفہ خوار انٹیلی جنشیہ سے کہیں بلند ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ حکمرانوں کی ان داخلی لڑائیوں میں کسی کی بھی حمایت نہیں کر رہے۔
حال ہی میں ہونے والے ضمنی و بلدیاتی انتخابات میں عوام اور بالخصوص نوجوانوں نے مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تحریکِ انصاف کا ’تبدیلی‘ کا چورن بھی زائد المیعاد ہو چکا ہے اور عمران خان کی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے گر رہا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نئی نسل تاریخ کے دلچسپ دوراہے پر کھڑی ہے۔ دانشوروں اور رائج الوقت قیادتوں کے نقطہِ نظر کے تحت نوجوانوں کے سامنے دونوں راستے تباہی اور بربادی کے ہیں لہٰذا وہ ان کو اپنی دانست میں کمتر تباہی کا راستہ تجویز کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ زندگی جب تمام دستیاب راستے بند کر دیتی ہے، تو نئے راستوں کی دریافت، نشاندہی اور آراستگی وقت کی اہم ترین ضرورت بن جاتی ہے۔ موجودہ دوراہے پر واقعی نظر آنے ولا ہر راستہ بیروزگاری، بیماری، ناخواندگی اور دہشت گردی کی طرف جاتا ہے کیونکہ یہ حالات کسی ایک لیڈر، پارٹی یا ادارے کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کی پیداورار ہیں، جس پر یہ سب پارٹیاں، لیڈر اور ادارے مشترکہ ایمان رکھتے ہیں۔ آئی یم ایف کو جتنا بھی مسیحا بنا کر پیش کر لیا جائے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہی سامراجی ادارے، ان کا نظام اور پالیسیاں اس ملک کو دیوالیہ کرنے کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ ان کی امداد اور خیرات سے زندگیوں میں بہتری آنے کی بجائے خستہ اور بدحال انسانی ڈھانچوں سے زندگی کی آخری رمق بھی چھین لی جائے گی۔ تو پھر کیا اور کوئی راستہ نہیں؟ جی ہاں راستہ بنانا پڑے گا، مزاحمت کرنی پڑے گی، لڑائی لڑنی پڑے گی اور انقلاب برپا کرنا پڑے گا۔
اس غریب اور دیوالیہ ملک کے یہ سیاستدان، سرمایہ دار، صنعتکار، بڑے تاجر، جاگیردار، جرنیل اور افسراتنے امیر ہیں کہ ان کی دولت اگر بحق عوام ضبط کر لی جائے تو بیروزگاری اور مہنگی تعلیم سے لے کر ٹرانسپورٹ اور رہائش تک تمام بنیادی عوامی مسائل عشروں یا سالوں نہیں بلکہ مہینوں میں حل ہو سکتے ہیں۔ ان کی نجی ملکیت کا مقدس حق چیلنج کرنا ہو گا۔ جب لوگ بھوک سے مر رہے ہوں تو اناج سے بھرے ہوئے گودام غیر اخلاقی ہیں، ان کو تحفظ دینے والی اخلاقیات کا بھوت سر سے اتار پھینکنا ہو گا۔ جب بجلی، پانی اور گیس جیسی ضروریات نایاب ہوں تو کیسا ملک اور کس کا دفاع؟ حب الوطنی کا ہر جھانسہ مسترد کرنا ہو گا۔ جب علاج اور تعلیم کی فراہمی سے ریاست ہاتھ کھینچ لے تو ٹیکس کیوں اور کسے ادا کیا جائے۔ جب مہنگی تعلیم کے بعد بھی روزگار نہ ہو تو کیسا ا ٓئین اور کونسی ریاست۔ نوجوان ساتھیو! اس نظام اور اس کی پروردہ ریاست کے خلاف حتمی اور فیصہ کن لڑائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ گھٹ گھٹ کر یونہی مرتے رہنا ہے یا لڑ کر اور اس دو فیصد اشرافیہ کو شکستِ فاش دے کر جینے کے قابل دنیا تخلیق کرنی ہے، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ مگر تاخیر کی گنجائش نہیں رہی۔ اب نہیں تو پھر کب؟