اداریہ ہلہ بول: کورونا وبا، آن لائن کلاسزاور بیروزگاری کا سیلاب

اس وقت پوری دنیا ایک بڑی تباہی کی زد میں ہے لیکن اس کے اثرات امیروں اور غریبوں پر الگ الگ ہیں۔ ایک طبقاتی سماج میں قدرتی آفات اور وبائیں بھی کمزور کو نشانہ بناتی ہیں جبکہ محنت کشوں کا خون پسینہ لوٹ کر وسائل مجتمع کرنے والے ان آفات میں بھی خود کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں اکثر کامیاب رہتے ہیں جبکہ محنت کش بے سرو سامانی میں ان آفات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

ہلہ بول کا پہلا شمارہ

کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر پوری دنیامیں ایک لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر ایک کے بعد دوسرے ملک میں سکول، کالج، یونیورسٹیوں سمیت دیگر شعبوں اور کاروباری مراکز کوبند کردیا گیا ہے۔ اس وبا کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تمام تر ذمہ داری حکمران طبقات اورسرمایہ دارانہ نظام پر عائد ہوتی ہے جس نے نہ صرف یہ کہ منافع کی ہوس میں حقیقی تحقیق کا گلا گھونٹا بلکہ صحت کے بجٹوں میں کئی دہائیوں سے مسلسل کٹوتیاں کر کے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں داؤ پر لگا دیں۔ تعلیم کا شعبہ بھی اس لوٹ مار سے مستثنیٰ نہیں اور اس پر بھی منافع خوری کے لیے مسلسل حملے کیے جاتے رہے ہیں جو ابھی بھی جاری ہیں۔ پاکستان کی حالت بھی انتہائی بد تر ہے جہاں صحت اور تعلیم کبھی بھی ان عوام دشمن حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہی۔

کہنے کو تو لاک ڈاؤن ہے مگر تعلیم کا کاروبار جاری و ساری ہے اور طلبہ سے فیسیں بٹورنے کا سلسلہ بھی نہیں رک سکا۔ بہت سے تعلیمی اداروں میں فیسیں بٹورنے کے لیے اچانک اور بغیر کسی تیاری کے آن لائن کلاسز کا لالی پاپ دیا گیا ہے جس سے طلبہ کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب کئی نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں نے اساتذہ اور عملے کی تنخواہوں میں کٹوتیاں شروع کر دی ہیں یا ان کو سرے سے نکال باہر کیا ہے۔ دیگر شعبوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے اور بہت سی صنعتوں اور اداروں سے بڑے پیمانے پر ملازمین کو نکالا جا رہا ہے جبکہ بہت سے ادارے بند بھی ہو رہے ہیں۔ کورونا وائرس اورسرمایہ دارانہ نظام کے عالمی مالیاتی بحران کے آغاز سے پوری دنیا میں بیروزگاری میں بھی بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہورہا ہے جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن شروع ہوتے ہی لاکھوں نوجوان بیروزگار ہوچکے ہیں اور ابھی یہ محض آغاز کا بھی آغاز ہے۔

کورونا وبا کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کی بندش نے نظام تعلیم کی بوسیدگی اور پسماندگی کا پردہ بھی چاک کردیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش کے ساتھ ہی پہلے نجی یونیورسٹیوں اور بعد ازاں سرکاری یونیورسٹیو ں نے بھی طلبہ کو ”مصروف“ رکھنے اور ان کا قیمتی وقت ”بچانے“ کے نام پر آن لائن کلاسز کے سلسلے کا آغاز کردیا جو کہ مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا ہے۔ زمینی حقائق سے مکمل طور چشم پوشی کرتے ہوئے بنا کسی تیاری کے اساتذہ کو آن لائن کلاسز منعقد کرنے کے احکامات جاری کر دئیے گئے۔ مقصد واضح تھا کہ کسی طرح لاک ڈاؤن اور بندش کے دوران طلبہ سے لاکھوں روپے فیسیں بٹورنے کا جواز پیدا کیا جائے تاکہ ان کے منافعوں میں کسی طور کمی نہ آئے اور تعلیم کا کاروبار چلتا رہے۔ دوسری طرف سرکاری یونیورسٹیوں کی جانب سے بھی آن لائن کلاسز کے اجرا کا مقصد اپنی آمدنی کو جاری رکھنا تھا تاکہ حکومت کی جانب سے تعلیمی بجٹ میں لگنے والی کٹوتیوں کا خمیازہ طلبہ سے پورا کیا جاسکے۔

مگر زمینی حقائق ان آن لائن کلاسز کی پوری کی پوری سرگرمی کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں آبادی کی ایک بھاری اکثریت کو لاک ڈاؤن کے دوران دو قت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں بیک جنبش قلم آن لائن کلاسز کا اجرا ایک بھونڈا مذاق ہے۔ اس کے خلاف پورے ملک کے طلبہ سوشل میڈیا پر صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آئے جس کے نتیجے میں جزوی کامیابی بھی حاصل ہوئی اور کئی ایک یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز کا سلسلہ روک کر سمیسٹر بریک کا اعلان کیا۔ مگر تاحال بیشتر یونیورسٹیاں طلبہ کے احتجاج کے باوجود اس سلسلے کو جاری رکھنے پر بضد ہیں۔

آن لائن کلاسز یا فاصلاتی تعلیم کوئی نیا تصور نہیں اور پاکستان میں بھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اورورچوئل یونیورسٹی جیسے ادارے فاصلاتی تعلیم دے رہے ہیں اور یہ ایک آگے کا قدم ہے۔ مگرآن لائن کلاسز کے جدید طریقہ کار کے لیے درکار وسائل مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آن لائن لرننگ کے لیے جہاں ایک طرف اساتذہ اور طلبہ کی تربیت درکار ہوتی ہے تو دوسری جانب ای لائبریری، ورچوئل لیبارٹریاں اوردیگر وسائل لازمی ہیں جن کا پاکستان میں تصور ہی نہیں۔ مزید برآں، ای لرننگ کے لیے سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ تیز رفتار انٹرنیٹ کی دستیابی شرط اول ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں طلبہ تو دور کی بات اساتذہ کی بھاری اکثریت کے پاس بھی یہ وسائل دستیاب نہیں۔ یوں یہ مسئلہ ایک طبقاتی مسئلہ بن کر ابھرتا ہے جہاں امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ تو آن لائن کلاسز سے مستفید ہوسکتے ہیں مگر طلبہ کی ایک بھاری اکثریت جومحنت کش یا نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھتی ہے، اس کے لیے مزید مشکل، پریشانی، مالی دباؤاور ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔

اس صورتحال سے واضح ہے کہ آنے والے وقت میں کورونا وبا کے کمزور پڑنے کے بعد جیسے جیسے زندگی بحال ہونا شروع ہوگی تو گہرے ہوتے معاشی بحران کے باعث پاکستان کا تعلیم دشمن حکمران طبقہ پہلے سے بڑھ کر تعلیم کے شعبے پر حملے کرے گا۔ بہت سی یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں کو قرنطینہ بنا دیا گیا ہے اور یہ امکان موجود ہے کہ اب انہیں طلبہ سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا جائے گا۔ اسی طرح کورونا وبا سے پہلے ہی اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں پچاس فیصد تک کٹوتی کی گئی تھی جس کا نتیجہ فیسوں میں لاکھوں روپے اضافے کی صورت میں نکلا اور درمیانے طبقے کے لیے بھی تعلیم کا حصول مشکل سے مشکل تر ہو گیا تھا۔ مگر یہ تو محض ٹریلر تھا۔ آنے والے عرصے میں معاشی بحران کو جواز بناتے ہوئے حکمران طبقہ سرکاری سکولوں سے لے کر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک، پورے شعبہ تعلیم کی نجکاری کی پوری کوشش کرے گا اور رہی سہی تعلیم کی سہولت بھی چھین کرلاکھوں نوجوانوں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دے گا۔ ایسے میں آج مفت تعلیم اور طلبہ یونین بحالی کی جدوجہد پہلے سے کہیں بڑھ کر اپنی ضرورت کا اظہار کر رہی ہے۔ جہاں یونیورسٹیاں آن لائن کلاسز کے نام پر فیسیں بٹورنا چاہتی ہیں تو نجی سکول اور کالج بھی پیچھے نہیں۔ تمام نجی سکول اس آفت میں بھی اپنے منافعوں کی قربانی دینے کے بجائے والدین سے پوری فیسیں ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی۔

یہ مہنگی ترین تعلیم ایک ایسے وقت میں فروخت کی جارہی ہے جب روزگار کے مواقع تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور ملک میں بیروزگاری کا سیلاب امنڈ رہا ہے۔ پی ایچ ڈی کرنے والے افراد روزگار کے لیے غیر ہنر مند محنت کشوں کی معمولی ترین اجرتوں پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایک حالیہ سرکاری رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کے نتیجے میں پاکستان میں دوکروڑ افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں جو کہ کل لیبر فورس کا 20 فیصد بنتا ہے۔ مگر یہ اعدادوشمار بھی حقیقت کی درست عکاسی نہیں کرتے۔ پاکستانی ریاست کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی شعبے کے حوالے سے درست اعدادو شمار ہی دستیاب نہیں اور جو اعداد وشمار دئیے جاتے ہیں ان کا مقصد بھی حقیقت کو چھپانا ہوتا ہے۔ کورونا وبا سے پہلے ہی غیر سرکاری اندازوں کو مطابق پاکستان میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 50 فیصد سے زائد بتائی جاتی تھی۔ اب اگر سرکاری اعداد شمار دو کروڑ لوگوں کے بیروزگار ہونے کا بتا رہے ہیں تو حقیقت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اور ابھی یہ محض اندازے ہیں اور اصل صورتحال اس وقت سامنے آئے گی جب لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد کئی ادارے، کمپنیاں اور صنعتیں دیوالیہ ہونے کے بعد لاکھوں نوجوانوں اور محنت کشوں کو بیروزگاری کی اندھی کھائی میں دھکیل دیں گی۔ یہ مظہر صرف پاکستان تک محدود نہیں اور بحران کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں صرف مارچ کے آخری دو ہفتوں میں ایک کروڑ افراد بیروزگار ہو چکے ہیں اور ریاست سے بیروزگاری الاؤنس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور یہاں پاکستانی حکمران، دیہاڑی داڑوں کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے سرمایہ داروں کو اربوں روپے کا ریلیف پیکج دے چکے ہیں۔ مگر بیروزگاری الاؤنس تو دور کی بات، حکومت چند ہفتوں کا راشن دینے میں بھی سنجیدہ نہیں۔

تعلیم کا کاروبار ہو یا بیروزگاری کا عفریت، آنے والے دنوں میں دونوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا۔ حکمران طبقہ ہمیشہ کی طرح بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ مگر یہ لازمی نہیں کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہو۔ یہ اس ملک کے لاکھوں نوجوانوں کی تقدیر ہر گز نہیں۔ طلبہ اور بیروزگار نوجوانوں کویہ ادارک حاصل کرنا ہے کہ کورونا وبا تو محض ایک حادثہ ہے جس نے ایک لمبے عرصے سے سطح سے نیچے پنپنے والے تضادات کو پھاڑ دیا ہے اور ایک عالمی بحران کا آغاز ہوگیا۔ مگر اس سے پہلے بھی یہاں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں۔ آج سرمایہ دار اور ان کی حکومتیں اس نظام کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں تاکہ ان کے منافع اور عیاشیاں جاری رہ سکیں۔ جب تک یہ طبقاتی نظام قائم رہے گا تعلیم کا کاروبار بھی یونہی چلتا رہے گا، فیسوں میں اضافہ جاری رہے گا اور بیروزگاری بھی بڑھتی رہے گی۔ یونہی کورونا جیسی وبائیں صحت کی ناکافی سہولیات کے باعث لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلتی رہیں گی۔ نوجوان ان غیر معمولی حالات سے شعوری اور لاشعوری طور پر نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ حکمرانوں کے تعلیم اور روزگار پر حملوں کیخلاف کوئی ردعمل نہیں آئے گا۔ مستقبل جدوجہد کے نئے دھماکوں سے لبریز ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان لڑائیوں کو اس طبقاتی نظام کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کے ساتھ جوڑا جائے اور سرمایہ دارانہ نظام کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام پر ایک فیصلہ کن ہلہ بولا جائے اور اس ظلم اور لوٹ کے رواج کو بدلا جائے۔ اس سماج کو بدلا جائے!

2 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.