ڈی جی خان: پی وائی اے کے زیر اہتمام سیلاب متاثرین کا اکٹھ؛ عوامی کمیٹی تشکیل دے دی گئی!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ڈیرہ غازی خان|

سیلاب سے متاثرہ علاقہ کوچھہ ککاری میں تین ماہ گزر جانے کے باوجود کسی قسم کی حکومتی امداد نہیں کی گئی۔ موسم سرما سیلاب متاثرین کے سر پر آن پہنچا ہے اور لوگ خستہ حال خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں اور ان حالات میں لوگوں کے لیے سردیاں گزارنا ناممکن ہے۔ ایسے میں پروگریسو یوتھ الائنس ڈیرہ غازی خان کے کارکنان نے سیلاب سے متاثرہ بستیوں کا وزٹ کیا اور محنت کش عوام کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا پیغام ان تک پہنچایا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان کی کوششوں کے نتیجے میں متفقہ طور پر سیلاب متاثرین نے بالآخر جمعہ کے دن ایک اکٹھ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ منظم ہو کر اس لڑائی کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اس اکٹھ میں سیلاب سے متاثرہ دیہاتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک پندرہ رکنی ”کوچھہ ککاری عوامی کمیٹی“ بھی تشکیل دی گئی۔

پسِ منظر

ڈیرہ غازی خان شہر سے شمال میں 36 کلومیٹر کے فاصلے پر انڈس روڈ پر موجود قصبہ کالونی سے مغرب میں 3 کلومیٹر پر واقع موضع کوچھہ ککاری کا علاقہ سیلاب سے شدید متاثر ہوا ہے۔ اس علاقے میں سب سے پہلی رود کوہی 20 جون کو آئی جس کی وجہ سے کم از کم پانچ بستیوں کے مکینوں کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا۔ 20 جون کو شروع ہونے والا رود کوہیوں کا سلسلہ مون سون بارشوں کے خاتمے تک جاری رہا۔ اس دوران ان رود کوہیوں نے اس علاقے میں موجود 24 دیہاتوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ یہ تمام بستیاں رود کوہی سُوری لنڈ کے جنوب میں واقع ہیں۔ علاقہ مکینوں کے مطابق پچھلے عرصے میں رود کوہی سوری لنڈ میں درے کے مقام پر تعمیراتی کام کیا گیا جہاں سے یہ رود کوہی شمال اور جنوب کی طرف مختلف شاخوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ رود کوہی کے قدرتی راستے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور اس طرح اس رود کوہی کی ایک شاخ تلی واہ کو چوڑا اور گہرا کیا گیا۔ شاخ تلی واہ کے اطراف میں موجود آبادیوں نے تلی واہ کے راستے کو وسیع کرنے کے خلاف احتجاج کیا اور ٹھیکیدار کو متنبہ کیا کہ تلی واہ کے راستے کو چوڑا اور گہرا کرنا اس کے اطراف میں موجود آبادیوں کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔ اس تعمیراتی کام کی وجہ سے اور بارشوں کے زیادہ ہونے سے رود کوہی سُوری لنڈ کا 80 فیصد پانی اپنے قدرتی راستے پر دریائے سندھ کی طرف بہنے کی بجائے شاخ تلی واہ کی طرف بہہ نکلا اور مزید 24 دیہاتوں کو برباد کردیا۔ رود کوہی کی وجہ سے بستی برنانی، بستی گاڈی، بستی وڈانی اور دو دیگر دیہاتوں کے 80 فیصد گھر اور زمینیں رود کوہی کے تل کا حصہ بن چکی ہیں۔ اسی طرح بستی اعجاز، چاہ بکھو والا، چاہ ڈھور والا، چاہ یارے والا و دیگر بستیاں 12 فٹ ریت اور مٹی کے اندر دھنس گئی ہیں اور اب 80 فیصد گھروں کے نشانات تک مٹ چکے ہیں۔

محکمہ جنگلات اور اراضی آفیسرز کی بدمعاشی

سیلاب سے بستیوں کی مکمل بربادی کے بعد سیلاب زدگان نے ان بستیوں کے مغرب میں ڈھلوانی علاقہ جسے ”ریخ“ کہا جاتا ہے کے اوپر عارضی طور پر خیمے لگائے ہوئے ہیں۔ ریخ پر سیلاب زدگان کی اپنی ملکیت کی زمین بھی موجود ہے اور باقی زمین سرکاری ملکیت میں ہے۔ لوگوں کے خیمے لگانے کے بعد محکمہ جنگلات کے مقامی افسر اختر قریشی نے سیلاب زدگان سے فی خیمہ 15 ہزار روپے اسے ادا کرنے مطالبہ کیا۔ اور یہ رشوت نہ دینے کی صورت میں خیمے اکھاڑ دینے کی دھمکیاں دیں۔ سیلاب متاثرین نے رشوت دینے سے انکار کیا تو اس رشوت خور افسر نے سیلاب متاثرین کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔جس وقت پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان اکٹھ کے سلسلے میں وہاں موجود تھے اس وقت بھی وہ افسر وہاں پنجاب پولیس اور بارڈر ملٹری پولیس کی نفری اور ٹریکٹرز لیکر پہنچ گیا اور سیلاب متاثرین کے خیموں کو اکھاڑنے کی کوشش کی جسے سیلاب متاثرین نے اکٹھے ہو کر ناکام بنا دیا۔

ایک طرف بے حس ریاستی انتظامیہ نے سیلاب زدگان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی اور دوسری طرف کرپٹ ریاستی اہلکار پہلے سے برباد سیلاب زدگان کے خیموں کو گرانے کے درپے ہیں۔

سیلاب متاثرین کا اکٹھ اور عوامی کمیٹی کی تشکیل

اس علاقے کے لوگوں کو سیلاب سے برباد ہوئے تین ماہ کا وقت گزر چکا ہے اور اب سردیاں ان سیلاب متاثرین کے سروں پر آن پہنچی ہیں، لیکن ابھی تک سیلاب متاثرین کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ اس علاقے کے سیلاب زدگان کو مقامی سرداروں اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے جو خیمے دیے گئے تھے وہ عارضی طور پر سر چھپانے کے کام تو آئے لیکن وہ ایسے خیمے نہیں تھے جو بارش، ہوا اور سردی وغیرہ سے بچا سکیں۔ اس علاقے کے سیلاب زدہ سینکڑوں خاندان پچھلے تین ماہ سے ان خیموں میں رہ رہے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ وہ خیمے بھی خستہ حال ہوچکے ہیں اور سردیاں ان خیموں میں گزارنا ممکن نہیں ہے۔ تاحال اس علاقے میں حکومتی سطح پر کسی قسم کا کوئی سروے تک نہیں کیا گیا۔

پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان سیلاب آنے کے بعد سے ان سیلاب زدگان سے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ملک بھر کی طرح ڈیرہ غازی خان میں بھی سیلاب زدگان کی طرف حکومتی بے حسی کے خلاف احتجاج بھی کر چکے ہیں۔ مکمل حکومتی بے حسی اور ان سیلاب زدگان کی تکالیف کے خلاف منظم لڑائی لڑنے کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ ان دیہاتوں کے افراد کا ایک اکٹھ رکھا گیا۔ اس اکٹھ میں سیلاب متاثرین کو درپیش مسائل پر گفتگو کی گئی اور ان مسائل کے حل کے لیے ایک منظم جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے لیے سیلاب سے متاثرہ دیہاتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک پندرہ رکنی ”کوچھہ ککاری عوامی کمیٹی“ بھی تشکیل دی گئی۔ اکٹھ میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ کمیٹی حکمرانوں کی بے حسی کے خلاف بھرپور مزاحمت کرے گی اور سیلاب متاثرین کے حقوق حاصل کرنے تک جدوجہد جاری رکھے گی۔

کوچھہ ککاری عوامی کمیٹی کے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:

1) حکومت جلد از جلد شاخ تلی واہ سے تباہ و برباد ہونے والے سیلاب متاثرین کے نقصان کے ازالے کے لیے سروے مکمل کرے اور سیلاب متاثرین کی فصلوں اور مویشیوں کے نقصان کا ازالہ کرے۔

2) رود کوہیوں کی وجہ سے جو دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور جن کو دوبارہ آباد کرنا ناممکن ہے، ان دیہاتوں کے متاثرین کو حکومت متبادل سرکاری زمین الاٹ کرے۔ جن کسانوں کی زمینیں شاخ تلی واہ کا حصہ بن چکی ہیں ان کو اور مقامی بے زمین کسانوں کو فصلوں کی کاشت کے لیے سرکاری زمین الاٹ کی جائے۔

3) موسم سرما سیلاب متاثرین کے سروں پر آن پہنچا ہے، موسم سرما سے بچنے کے لیے سیلاب متاثرین کو کمبل، رضائیاں و دیگر ضروری سامان دیا جائے۔ حکومت جلد از جلد گھروں کی دوبارہ تعمیر کے کام کا آغاز کرے یا فوری طور پر سیلاب متاثرین کے گھروں کی تعمیر کے لیے نقد رقوم ادا کی جائیں۔ جب تک گھروں کی تعمیر نہیں ہوتی تب تک سیلاب متاثرین کو سردیوں سے محفوظ کرنے کے لیے رہائش کا بندوبست کیا جائے۔

4) سیلاب زدہ علاقے میں فوری طور پر ایک فری سرکاری ڈسپنسری قائم کی جائے تاکہ بچوں، بزرگوں، حاملہ خواتین اور دیگر بیماریوں میں مبتلا متاثرین کو فوری علاج مہیا کیا جا سکے۔

5) رود کوہی سوری لنڈ کے قدرتی راستے کو بحال کرنے اور شاخ تلی واہ کو ٹھیک کرنے کے کام کا فوری آغاز کیا جائے۔

6) سیلاب متاثرین کے کم از کم چھ ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے جائیں اور زمینوں پر عائد دیگر ٹیکسز کم از کم ایک سال کے لیے منسوخ کیے جائیں۔

7) سیلاب سے متاثرہ علاقے کے طالب علموں کی فیسوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور بڑے شہروں میں زیر تعلیم طلبہ کو مفت ہاسٹل، میس اور ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے۔

اکٹھ کے شرکاء اور عوامی کمیٹی کی جانب سے ان مطالبات کے لیے جدوجہد کے آغاز کرنے کے حوالے سے سوموار شام کو ایک پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کانفرنس کے ذریعے عوامی ایکشن کمیٹی اپنے مسائل اور مطالبات میڈیا کے سامنے رکھے گی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنا مکمل لائحہ عمل بھی پیش کرے گی۔اکٹھ کے شرکاء کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ ایک بھرپور احتجاجی تحریک چلائیں گے۔

پروگریسو یوتھ الائنس نے سیلاب سے متاثرہ عوام کو درپیش مسائل کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیاہے۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اس احتجاجی تحریک میں ہمارا ساتھ دیں!

پروگریسو یوتھ لائنس کا ممبر بننے کے لیئے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.