|رپورٹ: حور|
تعلیمی میدان میں طالبات کو بہت سے مسائل کا سا منا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی طالبات تعلیمی اداروں سے دور رہنے کی وجہ سے ہاسٹل میں داخلہ لیتی ہیں۔ آج کل تو ہر شہر میں کا فی نجی ہاسٹلز قائم کیے جا رہے ہیں۔ خاص کر وہ لڑکیا ں ہاسٹل رہتی ہیں جو گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ گاؤں سے لڑکیا ں شہروں میں آکر تعلیم حاصل کر تی ہیں۔ کیونکہ گاؤں میں صرف میٹرک یا انٹر میڈیٹ تک تعلیم دی جا تی ہے۔ جو لڑکیاں آگے پڑھنے کی خواہشمند ہوتیں ہیں وہ شہروں میں آتی ہیں۔
شہروں میں بہت سے پرائیویٹ اور گورنمنٹ ہاسٹلز بھی ہیں لیکن پرائیویٹ ہاسٹلوں کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے، جبکہ گورنمنٹ ہاسٹل کی فیس نسبتاً کم ہوتی ہے۔ اسی طرح، ایک ہاسٹل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، گوجرانوالہ کا بھی ہے۔ اس لیے کچھ والدین غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو گورنمنٹ ہاسٹل میں بھیج دیتے ہیں تا کہ وہ وہاں رہ کر تعلیم حا صل کر سکیں۔
چاہے سرکاری ہاسٹل کی فیس کم ہو لیکن سرکاری ہاسٹل کا نظام ٹھیک نہیں ہے۔ گورنمنٹ ہاسٹل میں طالبات کو بہت ہی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ ایک تو ہا سٹل میں ڈسپنسر ی نہیں ہے۔ طالبات کو بیماری کی صور ت میں ہسپتال نہیں لے کے جا یا جاتا۔ نہ ہی اُ نہیں خو د جا نے کی اجا ز ت ہوتی ہے۔ اگر کوئی طالبعلم بہت زیا دہ بیما ر ہو تو اُ سے گھر بھیج دیا جا تا ہے تاکہ انتظامیہ کے پیسے نہ لگیں۔ یہاں ہاسٹل میں اُ س کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔
گورنمنٹ ہاسٹل میں طالبات کو موبائل فون رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر طالبات کو گھر والوں سے بات کرنی ہو تو ہاسٹل میں ایک فون ہے جس سے گھر بات کر نے پر ٹیکس لگتا ہے۔ ایک منٹ پر دس روپے کاٹے جا تے ہیں اور یہ ٹیکس کسی حکومتی فنڈ میں نہیں جاتا بلکہ یہ پیسے انتظامیہ کے پا س رہتے ہیں۔ یہ طالبات کی بہبود کے لیے نہیں لگائے جاتے۔ یہاں گورنمنٹ کے نام پر طالبات کو لُو ٹا جا تا ہے۔ ہاسٹل میں ایک ہی لینڈ لائن فون ہے اور وہ ہاسٹل وارڈن کے فون کے ساتھ متصل ہے۔ اگر کو ئی طالبہ اپنے گھر والوں سے بات کر رہی ہو تو اُس وقت ہاسٹل وارڈ ن بھی اُن کی باتیں سن سکتی ہے۔ اس ہاسٹل میں طالبات کی کوئی پرائیویسی نہیں ہے۔ ہاسٹل وارڈن کا ماننا ہے کہ جس لڑکی کے پا س موبائل فون ہو تا ہے وہ خرا ب ہو تی ہے اور اس قسم کی باتیں کرکے اُن کو ذلیل کیا جا تا ہے۔ طالبات پر طرح طرح کی پابندیا ں عائد کی جا تی ہیں۔ طالبات خود سے باہر نہیں جا سکتیں بلکہ صر ف اپنے رشتہ دار وں یا والدین کے ساتھ ہی جا سکتی ہیں۔
یہاں کا میس بھی اچھا نہیں ہے۔ یہاں کھا نا اس صورت میں ملتا ہے اگر آپ پورے وقت پر وہاں حاضر ہوں۔ اگر کوئی طالبہ میس کا کھا نا نہ کھائے پھر بھی اُسے میس کی 5ہزار ماہانہ فیس دینا پڑتی ہے۔ جلی ہوئی روٹیاں کھانی پڑتی ہیں۔ سردیوں اور گرمی میں میس ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ اگر کسی طالبہ کی ما ہا نہ فیس کلیئر نہ ہو تو وارڈ ن اسے گھر نہیں جا نے دیتی۔ اس ہا سٹل میں بہت سے اصول ہیں جو کہ ان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں اور کالج پراسپیکٹس میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ طالبات خود سے کچھ نہیں کر سکتیں کیو نکہ وہ مجبور ہیں اور اپنے گھر سے دور رہ کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
گورنمنٹ کے نام پر طالبات سے رشوت لی جا تی ہے۔ اگر کوئی طالبہ رشوت نہ دے تو اُسے یہ کہہ کر ڈرایا جا تا ہے کہ داخلہ نہیں بھیجا جا ئے گا۔ طالبات کو مجبور کیا جا تا ہے کہ وہ رشوت دیں۔ جو طالبات اپنے حق کے لیے بولتی ہیں اُنہیں چپ کروادیاجا تا ہے۔ اگر طالبات احتجا ج کر یں تو انہیں اس سے بھی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو طالبات ا حتجا ج کرتی ہیں اُنہیں یا تو کالج سے نکال باہر کیا جا تا ہے یا ان کے داخلے روک لیے جا تے ہیں۔ جس کی وجہ سے طالبات تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔