|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، خیبرپختونخواہ|
خیبر پختونخوا کے بڑے ڈسٹرکٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع صوبے کے ایک بڑے تعلیمی ادارے گومل یونیورسٹی میں رواں ماہ کے آغاز سے آج تک احتجاجی تحریک جاری ہے۔ تحریک میں مختلف طلبہ تنظیموں اور سوسائٹیوں کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں طلبا و طالبات شرکت کر رہے ہیں۔ یہ احتجاجی تحریک ستمبر کے آغاز میں یونیورسٹی میں طلبہ کو درپیش متعدد مسائل کے خلاف شروع ہوئی۔
احتجاجی طلبہ کے بنیادی مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ ہاسٹلوں میں میس کو بحال کیا جائے اور سبسڈائزڈ کھانا دیا جائے۔
2۔ سمر کیمپ کی فیس، ٹیوشن فیس، ہاسٹل فیس، امتحان فیس اور داخلہ فیس میں بے تحاشا اضافے کو واپس لیا جائے۔
3۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کو لائبریری، لیبز اور ہاسٹلز فراہم کیئے جائیں۔
4۔ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز اور ٹیچرز کا انتظامی عہدوں پر فائز ہوکر اختیارات کے غلط استعمال کو بند کیا جائے۔
5۔ الائیڈ سائنسز کو ایچ ای سی کے ساتھ رجسٹر کرواتے ہوئے فیکلٹی کی کمی کو فور طور پر پورا کیا جائے اوراس شعبے کی الگ بلڈنگ تعمیر کی جائے۔
6۔ اگرموجودہ وائس چانسلر طلبہ کے ان مسائل کو حل نہیں کرسکتا تو فوری طور پر استعفیٰ دے۔
7۔ فیسوں کی مد میں لیئے گئے کروڑوں روپے اور ترقیاتی فنڈز کا آڈٹ کیا جائے۔
8۔ احتجاجی طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائیاں بند کی جائیں۔
ان تمام ترمطالبات کے گرد گومل یونیورسٹی کے طلبا و طالبات نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا جو کہ ابھی وی سی دفتر کے سامنے دھرنے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس احتجاجی طلبہ کے ان تمام مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے تمام تعلیمی اداروں میں اور عمومی طور پر پورے پاکستان میں تعلیم کو مکمل طور پر ایک گھناؤنا کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ حکمران طبقہ اور یونیورسٹی انتظامیہ تعلیمی نظام کو چلانے میں بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس لیئے حکومتوں کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ ختم کیئے گئے اور انتظامیہ کو مکمل اختیار دیا گیا ہے کہ طلبہ کی فیسوں میں جتنا اضافہ کیا جاسکتا ہے اتنا اضافہ کریں اور یونیورسٹی کے اخراجات پورے کیئے جائیں، مگر اس پالیسی کے نتیجے میں غریب طلبہ مزید تعلیم کے حق سے محروم ہوتے چلے جائیں گے۔ ایسے میں پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ جہاں ان فوری نوعیت کے مسائل کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے وہیں طلبہ کو اپنے دیرینہ مطالبات کے لیئے بھی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر طلبہ یونین کے حق کیلئے لڑنا اس وقت طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ ہونا چاہئے۔ آج اگر طلبہ یونین موجود ہوتی تو وہ پورے ملک میں حالیہ سیلاب زدہ علاقوں کے طلبہ کی فیسوں کو مکمل طور پر خاتمے کے لئے جنگ لڑی جا سکتی تھی۔ اسی طرح طلبہ یونین کے ذریعے ہی فیسوں کے اضافے کو رکوانے میں کامیاب ہو سکتے تھے بلکہ فیس کے مکمل خاتمے، کیمپس کے اندر جنسی ہراسانی کے خاتمے جیسے دیگرمسائل کے حل کے لیئے منافع پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کیا جاسکتا ہے۔ طلبہ کو اپنے مشترکہ مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کرنے کیلئے تیار ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں آنے والے وقت میں بننے والے انقلابی حالات میں طلبہ کا انتہائی اہم سماجی اور سیاسی کردار بننے کی طرف جائے گا۔