|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ژوب (بلوچستان)|
صوبہ بلوچستان کے ضلع ژوب کے طلبہ کرونا وبا کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے پریشان کن مرحلے سے گزرنے کے بعد اب ایک اور مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ اور یہ حالت تقریباً سب ضلعوں میں مشترک ہے۔ لاک ڈاون کی طویل سزا کاٹنے اور لمبے عرصہ تک سکولوں کی بندش کے بعد اپنے سکول کے ساتھیوں سے ملنے کے لیے بے تاب طلبہ کے لئے سکولوں کا کھلنا بھی ایک جشن نہیں بلکہ آسمانی آفت بن کر سر پر گر پڑا ہے۔ یہ غریب و معصوم طلبہ لاک ڈاؤن کے دوران اپنے والدین کی برباد ہوتی ہوئی معاشی حالت کے دکھ اور سکول کھلنے کی خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ جب پہلے دن سکول میں داخل ہوئے تو سکول مالکان نے ان معصوم بچوں کی عارضی خوشی کو بھی ایک پریشانی میں بدل دیا۔ سکول مالکان نے طلبہ سے کسی بھی صورت میں لاک ڈاؤن کے مہینوں کی فیسیں جمع کرانے کا مطالبہ کر کے ان کو ان کے والدین کی تباہ حالی کا احساس دلایا۔
طلبہ کے والدین نے لاک ڈاؤن کی فیس مانگنے کی مخالفت کی ہے اور تقریباً سب لوگوں کی زبان پر یہ سوال ہے کہ جب لاک ڈاؤن کے عرصے میں پڑھایا نہیں گیا، جب ہمارے بچے سکول گئے ہی نہیں، تو فیس کس بات کی مانگی جا رہی ہے؟ کیا کرونا وبا، لاک ڈاؤن اور سکول کو بند کروانے کے ذمہ دار ہمارے بچے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے اور لاک ڈاون حکومت نے کروایا ہے تو حکومت سکول کے ملازمین کی تنخواہیں دینے کے لیے سکول مالکان کی مدد کرے۔ جو ذمہ داری حکومت کی ہے وہ ذمہ داری بچوں پر ڈالنا ایک شرمناک عمل ہے اور طلبہ کے والدین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا ہے اور اگر یہ پیسے مانگنے کے لیے والدین اور طلبہ کے ساتھ زبردستی کی جاتی ہے تو اس ڈاکہ زنی میں حکومت اور سکول مالکان کو برابر شریک سمجھا جائے گا۔
پاکستان کے آئین کے مطابق بچوں کو ابتدائی اور مفت تعلیم دینا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے لیکن زمینی حقائق یکسر مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ جوں جوں پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے، بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کی تعلیم کی ضرورت بڑھ رہی ہے اور نئے تعلیمی ادارے بنانے کی ضرورت میں اضافہ ہو رہا ہے، اسی حساب سے اس ملک کے حکمران بتدریج تعلیمی بجٹ پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں اور سالانہ کے حساب سے تعلیم اور صحت کے بجٹ کو کم کر رہے ہیں۔ نتیجتا سرکاری تعلیم سے محروم طلبہ کو پرائیویٹ سکول مالکان کے سامنے بے یار و مددگار پھینک دیا جاتا ہے جو بیچارے والدین کی جیبوں پر حملہ آور ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ جن والدین کے پاس دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کے علاوہ اپنے بچوں کی بھاری فیسیں بھرنے اور دیگر تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی وہ مجبوراً اپنے ننھے منے بچوں کو لیبر مارکیٹ میں کچھ کمانے کے لئے جھونک دیتے ہیں۔
جن کا ابھی تتلیوں کے ساتھ کھیلنے کا وقت ہوتا ہے ان معصوم ہاتھوں میں ہتھوڑے، کلہاڑی، ہوٹل کے چائنک اور ٹرالی وغیرہ دے دیے جاتے ہیں، جنہیں اپنے باپ کے کندھوں پر بیٹھ کر خوش ہونا تھا ان کے اپنے نازک کندھوں پر بوریاں لادی جاتی ہیں اور جنہوں نے اپنے ماں کی آغوش میں جنت کی سیر کرنی تھی وہ کام کی جگہوں پر پرایوں کی آغوش میں استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ کیا ان بچوں اور حکمرانوں کے بچوں میں کوئی ازلی فرق ہے؟ کیا صرف حکمرانوں، سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے؟ کیا وہ بچے ان بچوں سے مختلف احساسات و جذبات رکھتے ہیں؟ نہیں! بچے تو ایک جیسا جینے کا حق لے کر پیدا ہوتے ہیں اور یہ حق وہ اس سماج پر رکھتے ہیں۔ لیکن جس سماج میں وہ آنکھیں کھولتے ہیں وہ دو طبقوں (محنت کش اور سرمایہ دار) میں بٹا ہوا ہے۔ اس لیے دو طبقوں والا نظام بچوں کو بھی اس بنیاد پر تقسیم کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایک کے مقدر میں تاریکی، پسماندگی اور غربت جبکہ دوسرے طبقے کے بچوں کا مقدر اپنے طبقے کی طرح خوشیاں، رونقیں اور آسائشیں بن جاتا ہے۔ انسانی سماج کے اس طبقاتی نظام کو ختم کر کے ہی انسانوں کے بیچ اس غیر انسانی فرق کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ طبقاتی سماج کے اندر تعلیم بھی طبقاتی بنیادوں پر استوار ہے اس لیے تعلیم کے اندر بھی طبقاتی تفریق کو تب ہی ختم کیا جا سکتا ہے جب نظامِ تعلیم کے اندر طبقاتی فرق کو ختم کیا جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر سطح پر، یعنی ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک، مفت تعلیم فراہم کی جائے۔ غیر طبقاتی اور یکساں نظامِ تعلیم ہی وہ بنیاد ہے جو ہر قسم کی تعلیمی محرومی اور تعلیمی فرق کو ختم کرنے کا ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔
اس انقلابی تبدیلی کی جدوجہد کو ملک کے تمام طلبہ تک پہنچانا وقت کی ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔ طلبہ اتحاد ہی وہ طاقت، وہ اوزار ہو گا جس کے ذریعے تعلیمی بجٹ میں اضافے، طلبہ یونین کی بحالی، مفت اور معیاری تعلیم جیسے مطالبات کے حصول کے ساتھ ساتھ غیر طبقاتی اور یکساں نظامِ تعلیم کے اس خواب اور عزم کو حقیقت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
جینا ہے تو لڑنا ہو گا!