|تحریر: مرکزی بیورو، پروگریسو یوتھ الائنس|
5 اگست 2019ء کو ہندوستانی پارلیمنٹ نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کرتے ہوئے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرکے ہندوستان کی یونین ٹریٹری کا حصہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ ہندوستانی ریاست کے اس قدم نے جہاں کشمیر میں بسنے والے لوگوں کے حق خودارادیت اور شناخت پر کاری ضرب لگاتے ہوئے واضح طور پر سامراجی قبضہ مسلط کیا ہے وہیں اس پورے خطے میں سیاسی ہلچل کو برپا کر دیا ہے۔ ہندوستانی ریاست نے اس اقدام سے پہلے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں ناصرف بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز میں اضافہ کیا بلکہ تمام موصلاتی سروسز کو بند کرتے ہوئے پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اور تمام غیر ریاستی باشندوں کا انخلاء کرواتے ہوئے مکمل ریاستی کنٹرول کے ذریعے صورتحال کو قابو میں کیا۔
پچھلے 72 سال سے کشمیر کا مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع حیثیت سے موجود تھا، جس پر دونوں ممالک کے درمیان جنگوں کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور لائن آف کنٹرول کو اکثر جھڑپوں کا مرکز رکھا جاتا رہا ہے۔ جس سے لائن آف کنٹرول کے آر پر رہنے والے کشمیریوں کے جان و مال ہی نشانہ بنتے رہے ہیں۔
لمبے عرصے سے چلے آنے والے اس متنازع مسئلے کے بارے میں یہی تصور عام تھا کہ ہندوستانی اور پاکستانی ریاست اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں باہمی رضامندی سے ہی اس مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کر سکتے ہیں، ایک ماہ پہلے تک کوئی بھی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ اس طرح کے یکطرفہ فیصلے سے سامراجی ریاست کشمیر کا فیصلہ کر دے گی۔ اس لیے موجودہ صورتحال نے جتنی اچانک اور غیر متوقع ظاہری کیفیت میں اپنا اظہار کیا ہے اسکو سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی زوال اور خطے میں عالمی طاقتوں کے بدلتے ہوئے توازن کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے اور یہی وہ محرکات ہیں جو موجودہ کیفیت کا باعث بنے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہندوستانی ریاست کے اس فیصلے نے کشمیر کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کر کہ رکھ دیا ہے وہیں اس پورے خطے میں چلی آنے والی سیاست کی بنیادوں کو بھی ختم کر دیا ہے۔ پاکستانی ریاست جو پچھلے 72 سالوں سے کشمیر کے مسئلے کو بنیاد بنا کر یہاں کی عوام سے اربوں روپے ہڑپ کرتی رہی ہے آج بری طرح عریاں ہو کر عوام کے سامنے آچکی ہے اور ہندوستان کے موجودہ فیصلے کہ خلاف کسی بھی اقدام سے قاصر ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کا خصی پن بھی واضح طور پر عیاں ہو چکا ہے اور وہ بھی تشویش کے علاوہ کچھ کرنے سے قاصر ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس تمام مظلوم قومیتوں کے حق خودارادیت اور شناخت کو انکا بنیادی حق سمجھتا ہے اور اسکی حمایت کرتا ہے اس لیے ہندوستانی ریاست کا موجودہ اقدام واضح طور پر کشمیریوں کے حق خودارادیت اور شناخت پر حملہ ہے جسے کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر پر اس سامراجی قبضے اور کشمیر میں بیٹھے دلال حکمرانوں کے خلاف نوجوانوں اور محنت کشوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے جہدوجہد کا اعلان کرتا ہے۔
پیپلز نیشنل الائنس کا قیام
10 اگست کو کشمیر میں موجودہ مسئلے پر تمام قوم پرست اور ترقی پسند پارٹیوں کی ایک مشترکہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں 27 پارٹیوں نے شرکت کی اور موجودہ مسئلے کو زیر بحث لایا اور اس کے خلاف مشترکہ جہدوجہد کیلئے بنیادی نکات کا تعین کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل پیپلز نیشنل الائنس کے نام سے ایک مشترکہ فورم قائم کیا۔ مشترکہ اجلاس میں جن نکات کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1- کشمیر کے تمام حصوں بشمول گلگت بلتستان اسٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال کیے جانے کیلئے جہدوجہد۔
2- دونوں مقبوضہ علاقوں سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے لیے جہدوجہد۔
3- کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ایک آزاد آئین ساز اسمبلی کے قیام کیلئے جہدوجہد۔
4- کشمیر اور گلگت بلتستان میں تحریک کو منظم کرنے کیلئے عوام کے بنیادی مسائل (روزگار، تعلیم، علاج اور دیگر) کو اجاگر کرتے ہوئے ہر ضلع میں شہروں اور گاؤں کی سطح پر میٹنگز اور احتجاج کیے جائیں گے۔
پروگریسو یوتھ الائنس نے اس الائنس میں شمولیت کا اعلان کیا اور کشمیر کے محنت کشوں کی حقیقی آزادی تک عوام کو متحرک اور منظم کرنے کا اعادہ کیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ جہاں کشمیر کی آزادی کی لڑائی کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو اپنے زور بازو پر لڑنی ہو گی وہیں پاکستان اور ہندوستان میں موجود محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت کے بغیر بھی ان سامراجی ریاستوں سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی حقیقی آزادی کیلئے پاکستان میں موجود دیگر مظلوم قومیتوں کے محنت کش طبقات تک اس پیغام کو لے کر جائے گی۔
One Comment