کامریڈ امین کی بازیابی۔ سوشلسٹ انقلاب تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

Comrade Amin has been released

14 جولائی کی رات کو پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے سرگرم کارکن کامریڈ امین کو شاہ فیصل کالونی میں واقع ان کے گھر سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ درجن بھر رینجرز کے اہلکار اور چند ایک سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار زبردستی ان کے گھر میں گھسے اور امین کی بوڑھی ماں اور بہن کو زد و کوب کیا اور امین کو نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

گزشتہ تین ہفتوں میں کامریڈ امین کو تین مختلف مقامات پر رکھا گیا اور شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر بہت سے جھوٹے الزامات لگائے گئے اور انہیں مسلسل مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ تمام تر الزامات کو قبول کر لیں۔ لیکن کامریڈ امین نے غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کیا اور وہ کوئی بھی جرم اپنے سر لینے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔ اور بار بار ایک ہی بات دہراتے رہے کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور کسی بھی قسم کے جرائم پیشہ افراد یا گروہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان کو مزید کئی ماہ یا کئی سالوں تک انہیں عقوبت کدوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا یا پھر انہیں دردناک طریقے سے اذیتیں دے دے کر قتل کر دیا جاتا مگر اسی دوران پروگریسو یوتھ الائنس کی طرف سے ملک گیر احتجاجی تحریک اور بعد ازاں عالمی مارکسی رجحان کی طرف سے دنیا بھر میں کیے جانے والے احتجاجوں کے باعث اغواکاروں کو انہیں چھوڑنا پڑا. یکم اگست کی صبح اغوا کار انہیں کالا پل کے قریب چھوڑ کر غائب ہو گئے اور وہ صبح پانچ بجے کے قریب اپنے گھر پہنچ گئے۔

کامریڈ امین کا تعلق بٹوارے کے بعد دلی سے ہجرت کر کے آنے والے ایک متوسط طبقے کے خاندان سے ہے۔ وہ لڑکپن سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ کراچی کی ایک وسیع آبادی کی طرح سیاست کرنے کے لیے ان کے پاس بھی آپشنز نہ ہونے کے برابر تھے اور انہیں بھی متحدہ قومی موومنٹ جیسی لسانی تنظیم سے ہی سیاست کا آغاز کرنا پڑا۔ متحدہ قومی موومنٹ کو 80 کی دہائی میں کراچی کے محنت کشوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ ریاست کے پالیسی ساز 1968-69ء
کے انقلاب کے تجربے سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر سرمایہ دارانہ نظام کو جاری رکھنا ہے تو کراچی کے محنت کش طبقے کی منہ زور سیاسی طاقت کو کچلنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طبقاتی مصالحت کی غدارانہ پالیسیوں کے باعث اگرچہ مزدور تحریک پسپا ہو چکی تھی مگر حکمران طبقات اور ریاست کے پروردگار مستقبل میں پھر کسی بڑی عوامی مزاحمت کے خطرے کے پیشِ نظر برطانوی آقاوں سے مستعار لی گئی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر سختی سے کاربند تھے۔ سب سے پہلے تو کراچی کی سب سے بڑی یعنی مہاجر آبادی کو مقامی سندھی باشندوں اور ملک بھر سے آئے ہوئے مختلف اقوام کے محنت کشوں سے سیاسی طور پر کاٹنا اور نفرتوں کے بیج بونا بہت ضروری تھا۔ اس لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سندھی مہاجر فسادات کروا کر وہ معروضی حالات پیدا کیے گئے کہ جس میں لسانیت کی چنگاری کو ہوا دی جا سکے۔ اور بالاآخر آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بعد ازاں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ سوویت یونین کے زوال اور بعد ازاں انہدام کے بعد محنت کش طبقے کی تحریک کی فیصلہ کن پسپائی کے بعد درمیانے طبقے کے سیاسی طور پر متحرک عناصر نے ایم کیو ایم کو وہ سماجی مواد فراہم کیا جس کی بنیاد پر تھوڑے ہی وقت میں یہ کراچی کی ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر اپنا تشخص بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ جوں جوں اس کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا توں توں اپنے ہی ریاستی آقاوں کے ساتھ اس کے تضادات بھی شدت اختیار کرنے لگے۔ چونکہ اس پارٹی کی بنیاد ہی لسانیت پر رکھی گئی تھی اس لیے بڑھتی ہوئی مقبولیت اور طاقت سے اس میں فسطائی رجحانات کا غالب انا ناگزیر تھا۔ ریاست نے پارٹی پر اپنی گرفت بحال کرنے کے لیے پارٹی کو تقسیم بھی کیا مگر 92ء اور 95ء کے ریاستی آپریشنز کے باعث اردو بولنے والے محنت کش طبقے کی پچھڑی ہوئی اور شکست خوردہ پرتوں میں بھی اس پارٹی کی قیادت کی طرف قدرے خوش فہمیاں پیدا ہونے لگی تھیں، ان خوش فہمیوں کو مزید تقویت دینے کے لیے الطاف حسین نے پارٹی کا نام بدل کر مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا اور پارٹی کو کراچی سے نکال کر پہلے مرحلے میں سندھ کے باقی اضلاع اور پھر ملکی سطح تک پھیلانے کا فیصلہ کیا مگر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے اقتدار میں آنے کے بعد ریاست کے حاوی دھڑے نے ایم کیو ایم کو کراچی میں لگ بھگ بلاشرکتِ غیرے تمام تر طاقت اور اقتدار سونپ دیا۔ الطاف حسین کی خود ساختہ جلاوطنی کے باوجود پاکستان میں ہونے والی ہر سیاسی اتھل پتھل میں ایم کیو ایم ایک مستقل اور اہم سیاسی فریق سمجھی جانے لگی تھی۔ دولت اور طاقت کی ریل پیل نے پارٹی سے ہر قسم کی سیاسی رمق کا خاتمہ کر دیا اور بالآخر یہ ایک منظم جبر اور وحشت میں تبدیل ہو گئی۔ لوٹ مار، بھتہ خوری اور قبضہ گیری پارٹی میں بڑے پیمانے پر سرایت کرتی چلی گئی۔ بظاہر ایم کیو ایم بہت بڑی قوت تھی مگر اندر ہی اندر پارٹی کے مقامی قائدین کے خلاف اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف نفرت میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا مگر پیپلز پارٹی چونکہ ریاست کے ساتھ فیصلہ کن مفاہمت پر عمل پیرا تھی اس لیے وہ مہاجر آبادی کے لیے سیاسی متبادل بننے میں ناکام رہی اور دوسری طرف دیگر اقوام کی مسلح تنظیمیں بھی بنائی جاتی رہیں۔ لسانیت کی آگ میں سینکڑوں گھرانوں کو جلا کر بھسم کر دیا گیا۔ ایسے میں قیادت سے بدظنی کے باوجود مہاجر آبادی میں ایم کیو ایم کی فسطائی گرفت کے خلاف بڑی عوامی مزاحمت نہیں بن سکی۔ تحریکِ انصاف کی کراچی میں آمد کے بعد جو سیاسی متبادل نظر آنا شروع ہوا تو اردو بولنے والی آبادی میں کسی حد تک سیاسی گہماگہمی نظر آنے لگی تھی۔ مگر تحریکِ انصاف کی ریاستی پشت پناہی جلد ہی بے نقاب ہو گئی اور وہ بھی مہاجر آبادی میں اپنی سیاسی و سماجی بنیادیں استوار نہ کر سکی۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد پاکستانی معیشت کے غبارے سے بھی ہوا نکلنا شروع ہو گئی تھی۔ جوں جوں معاشی بحران بڑھتا گیا ایم کیو ایم کی لوٹ مار کے مواقع بھی کم ہوتے گئے اور ایم کیو ایم میں داخلی رسہ کشی اور گروہی تعصبات بھی بڑھتے رہے اور بالاآخر ایم کیو ایم ایک دفعہ پھر تقسیم ہو گئی۔ الطاف حسین کی متنازعہ تقاریر کے بعد اس کی تقاریر پر ریاست کو پابندی لگانی پڑی لیکن چونکہ کراچی میں ریاست کے پاس بھی کوئی دوسرا سیاسی متبادل موجود نہیں تھا اس لیے مائنس ون فارمولے کے تحت الطاف حسین کو نکال کر ایم کیو ایم پاکستان بنا دی گئی اور الطاف حسین والے دھڑے کو ایم کیو ایم لندن کا نام استعمال کرنا پڑا ۔ بعد ازاں ایم کیو ایم لندن کو کالعدم تنظیم قرار دے دیا گیا اور پاک سر زمین پارٹی کے نام سے ایک نئی دم چھلہ پارٹی کی بنیاد رکھ دی گئی اور سیاسی کارکنوں کو ریاستی جبر کے ذریعے اس نئی پارٹی میں شامل ہونے پر مجبور کیا جانے لگا۔ گزشتہ کئی برسوں سے جاری یہ سیاسی انجینئرنگ تمام تر ریاستی طاقت کے باوجود بری طرح ناکام ہوئی ہے اور اس ناکامی نے کراچی کے آقاوں کے ہیجان اور فرسٹریشن کو کئی گنا بڑھا دیا ہے اور اسی فرسٹریشن نے ریاستی جبر کی حالیہ لہر کو جنم دیا ہے۔

کامریڈ امین ایم کیو ایم میں تقسیم در تقسیم سے مکمل طور پر بدظن ہو چکے تھے۔ اور وہ 2017ء میں ہی ایم کیو ایم کو خیر باد کہہ چکے تھے۔ اس عرصے میں پروگریسو یوتھ الائنس نے ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی اور مفت تعلیم کے حصول کے لیے بھرپور سیاسی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔ جہاں ایک طرف عملی میدان میں مختلف شہروں میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے کنونشنز منعقد کیے جا رہے تھے وہیں سوشل میڈیا پر بھی ان مطالبات کے گرد کیمپئین عروج پر تھی۔ ساتھ ہی پشتونوں کی عوامی مزاحمت سمیت دیگر تمام سیاسی واقعات پر پروگریسو یوتھ الائنس اپنا واضح سیاسی پروگرام اور اعلامیے جاری کرتی رہی۔ امید کی اس روشنی کی ایک کرن کامریڈ امین اور ان کی بہن سائرہ بانو تک بھی پہنچی اور طویل سیاسی و نظریاتی بحثوں اور میٹنگز کے بعد انہوں نے بالآخر پروگریسو یوتھ الائنس اور عالمی مارکسی رجحان میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور وہ گزشتہ دو سال سے تنظیم میں اپنی استعداد کے مطابق فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ حالیہ جبری گمشدگی کے دوران انہیں بار بار مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ تسلیم کریں کہ وہ آج بھی ایم کیو ایم لندن سے وابستہ ہیں اور ان کے لیے متشدد کاروائیوں میں ملوث ہیں اور جب کامریڈ امین نے اپنے حوصلے اور عزم کے بلبوتے پر ان مذموم مقاصد کو ناکام بنا دیا تو پھر عالمی مارکسی رجحان کے خلاف انہیں ورغلانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ عالمی مارکسی رجحان کی قیادت کو گالم گلوچ کی گئی اور عالمی مارکسی رجحان میں کام جاری رکھنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اسی اثنا میں عالمی مارکسی رجحان کے کامریڈز کی شاندار اور مثالی بین الاقوامی یکجہتی کیمپئین کے دباؤ میں ان ستمگروں کو کامریڈ امین کو رہا کرنا پڑا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کامریڈ امین کی بازیابی نہ صرف عالمی مارکسی رجحان بلکہ تمام ترقی پسند قوتوں کی مشترکہ کامیابی ہے۔ ہم عوامی ورکرز پارٹی کراچی، انٹرنیشنل سوشلسٹ، ڈی ایس ایف اور سوشلسٹ انٹرنیشنل کے ان تمام دوستوں کے بھی بھرپور مشکور ہین جنہوں نے سوشل میڈیا کیمپئین اور عملی احتجاج مین ہمارا بھرپور ساتھ دیا۔ کامریڈ امین کے حوصلے اور سوشلسٹ مستقبل پر ان کا یقین پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے اور یہی ہماری اصل کامیابی ہے۔ انقلابی اساتذہ نے بالکل درست کہا ہے کہ ایک انسان کا بآسانی قتل کجا جا سکتا ہے مگر اس نظریے کو قتل کرنا ناممکن ہے جس نظریے کا وقت آ چکا ہو۔

سوشلسٹ انقلاب زندہ باد

عالمی مارکسی رجحان پائندہ باد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.