حیدر آباد: وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کامیاب مرکزی کنونشن کا انعقاد

|رپورٹ: وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن|

7 مارچ 2019ء کو پریس کلب حیدرآباد میں وطن دوست اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے انتہائی شاندار مرکزی کنونشن کا انعقاد ہوا۔ جس میں سندھ کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے شرکت کی۔ کنونشن کا بنیادی مطالبہ ہر سطح پر مفت تعلیم اور طلبہ یونین کی بحالی تھا۔ کنونشن میں مختلف سیشن رکھے گئے تھے۔

پروگرام کی شروعات انقلابی گیتوں سے کی گئی۔ سیشن کی شروعات سے پہلے وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی عہدیداروں نے تقاریر کیں، جن میں کاشف عباسی نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں شاگردوں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے ان مسائل کا حل ایک مظبوط طلبہ تنظیم اورطلبہ یونین کی بحالی بتایا۔ ان کا کہنا تھا کے ہم سب طلبہ کو ملکر طلبہ یونین کی بحالی کے لئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ تنظیم کے سیکرٹری جنرل مہران خان نے وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سندھ میں بننے پر بات کی کہ سندھ کے اندر کوئی بھی ایسی طلبہ تنظیم نہیں بچی تھی جو حقیقی طور پر طلبہ کے مسائل پر جدوجہد کرتی۔ایسے ماحول میں ہم نے وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا اور آج ہم سندھ کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے ’سندھ یونیورسٹی‘ میں ایک مظبوط طلبہ تنظیم کے طور پر موجود ہیں جس پر سندھ کو سندھ کے طلبہ اپنی نمائندہ جماعت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

پہلا سیشن ’عورتوں کے حقوق کی جدوجہد اور انقلابی سوشلزم‘ کے عنوان پر تھا، جس کی اسپیکر کامریڈ انعم خان تھیں۔ دوسرا سیشن ’قومی جمہوریت اور سوشلزم‘ کے عنوان پر تھا، جس کے اسپیکر کامریڈ پارس جان اور کامریڈ بخشل تہلو تھے۔ تیسرا سیشن ’طلبہ سیاست‘ کے عنوان پر تھا جس میں کامریڈ امر فیاض اور کامریڈ سرمد سیال نے حصہ لیا۔ کامریڈ امر فیاض نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں پی ایس ایف اور قوم پرست جماعتوں کے طلبہ فرنٹس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان تنظیموں نے ماضی قریب میں طلبہ کے مسائل پر جدوجہد کے بجائے طلبہ کو مزید مسائل میں دھکیلا ہے اور یہ فرنٹس صرف اپنی نام نہاد لیڈرشپ کی تعریف و تشہیر کے لیے کام آئے۔

کامریڈ سرمد نے یونین کی بحالی پر زور دیتے ہوئے طلبہ کو یکجا ہونے کا کہا۔ انہوں نے طلبہ یونین پر پابندی کے حوالے سے کہا کہ حکمرانوں کو ون یونٹ اور دیگر مواقعوں (مثلاَ 1968-69کی تحریک میں اور ضیاء آمریت کے خلاف) پر طلبہ یونین کی بدولت طلبہ کے انقلابی کردار اور خاص طور پرطلبہ یونین پر بائیں بازو کے قبضے کا ڈر تھا جس کی وجہ سے طلبہ یونین پر ہی پابندی عائد کر دی گئی۔ان حکمرانوں کو یہ خوف تھا کہ کہیں وہ انقلابی نوجوان جن کا طلبہ یونینز میں کلیدی کردار تھا ، سماج کی دوسری پرتوں جن میں خاص طور پر محنت کش طبقے کیساتھ طلبہ تحریک کو نہ جوڑ دیں۔ لہذٰا طلبہ یونین سمیت تمام بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں پر ہی پابندی عائد کر دی گئی۔ جبکہ دوسری جانب جمیعت جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کو تعلیمی اداروں میں کھلی چھوٹ دی گئی۔پروگرام کا اختتام محفل موسیقی سے کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.