|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
جیند بلوچ، جو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں شعبہ سوشیالوجی کا طالب علم ہے، کو کوئٹہ میں چھوٹے بھائی اور والد سمیت گھر سے سکیورٹی فورسز کی جانب سے 30نومبر2018ء بروز جمعہ رات 3بجے کے قریب جبری طور پر اغوا کیا گیا۔ اس جبری گمشدگی کے خلاف 3دسمبر2018ء کو بی زیڈ یو میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے یونیورسٹی کے اندر ایک احتجاجی ریلی نکالی اور اسکے بعد پریس کلب ملتان کے سامنے بھی احتجاج کیا۔ اسکے علاوہ جیند کی کلاس میں بھی اسکے ہم جماعتوں کی جانب سے اسکے حق میں مختصر احتجاج کیا گیا۔
ریلی کا آغاز مین کیفے ٹیریا سے 01:30بجے ہوا اور مین گیٹ تک نکالی گئی۔ ریلی میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں طلبہ نے حصہ لیا اور طلبہ اتحاد کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ اسکا (طلبہ اتحاد) عملی نمونہ جہاں ریلی میں دیکھا جا سکتا تھا وہیں انکے نعروں سے بھی واضح ظاہر ہو رہا تھا۔ مثلاً طلبہ کا ایک نعرہ جو وہ بار بار لگا رہے تھے وہ یہ تھا ’’ ایک کا دکھ، سب کا دکھ‘‘۔ ریلی میں تقریبا 500کے قریب طلبہ نے شرکت کی۔سینکڑوں طلبہ کا یہ سمندر یہی مطالبہ کر رہا تھا کہ جیند بلوچ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ریلی کا اختتام مین گیٹ پر ہوا۔ ریلی کے اختتام پربھی طلبہ کی جانب سے بھرپور نعرہ بازی کی گئی۔
یونیورسٹی میں طلبہ کی اس شاندار ریلی کے بعد طلبہ کی جانب سے پریس کلب ملتان کے سامنے بھی ایک احتجاج کیا گیا۔ اس احتجاج میں بھی جیند کی رہائی کیلئے بھرپور نعر ہ بازی کی گئی۔ یہ احتجاج تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے ممبران نے بھی احتجاج میں شرکت کی۔
طلبہ کا کہنا تھا کہ اس طرح گھروں سے نوجوانوں کو اٹھا لینے سے نوجوانوں میں انتہا پسندی کا رجحان جنم لیتا ہے جس سے پورے سماج کو نقصان ہوتا ہے۔ جیند بلوچ ، اسکے چھوٹے بھائی اور والد نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ اگر وہاں کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو سزا دی جائے اگر نہیں ہوتا تو رہا کیا جائے۔ اس طرح گھروں سے بغیر کسی وارنٹ اور ثبوت کے لوگوں کو اٹھا لینے سے لوگوں کی نظر میں ریاست کے آئین کی کوئی عزت اور قدر نہیں رہ جاتی جو کسی بھی جمہوری سماج کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
طلبہ کا کہنا تھا کہ اگر جیند کو بازیاب نہیں کیا گیا تو وہ مستقبل میں پورے ملک میں احتجاجی تحریک کا اعلان کریں گے اور کلاسوں کا بھی بائیکاٹ کریں گے۔ اسکے علاوہ روز بازووں پر سیاہ پٹی باندھ کر کلاسوں میں جائیں گے۔
پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ جیند بلوچ، انکے چھوٹے بھائی اور والد سمیت تمام جبری طور پر گمشدہ افراد کو فوری بازیاب کیا جائے اور اگر انہوں کوئی جرم کیا ہے تو انہیں سزا دی جائے۔
جیند بلوچ کی بازیابی کیلئے اس احتجاج میں طلبہ کی بھرپور شرکت سے یہ چیز بھی واضح ہوتی ہے کہ تمام طلبہ ایک ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے انہیں تقسیم کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ اگر پہلے کبھی کسی بلوچ طالب علم کا کوئی مسئلہ بنتا تھا تو صرف بلوچ ہی اسکے حق میں نکلتے تھے، کسی پشتون کا مسئلہ بنتا تو صرف پشتون نکلتے، کسی ایک ڈپارٹمنٹ کے طلبہ کا مسئلہ بنتا تو صرف اس ڈپارٹمنٹ کے طلبہ نکلتے الغرض تمام طلبہ علیحدہ علیحدہ لڑائی لڑتے تھے۔ جس کی وجہ سے اگر انہیں وقتی کامیابی بھی مل جاتی تو بعد میں انتظامیہ کی انتقامی کاروائی کا شکار ہونا پڑتا تھا۔ یہ سب انتظامیہ کیلئے بھی فائدہ مند تھا کہ طلبہ علیحدہ علیحدہ آواز اٹھائیں تا کہ انہیں آرام سے دبا دیا جائے۔ اس پالیسی میں انتظامیہ ہمیشہ کامیاب ہوتی تھی۔
مگرآج کے اس احتجاج سے یہ صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ طلبہ میں جڑت کا شعور تیزی سے پھیل رہا ہے اور آج طلبہ قوم ، نسل، رنگ، مذہب یا کسی اور تفریق سے بالاتر ہو کر مشترکہ جدوجہد کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں اور اس کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایسا پہلے شاید کبھی نہیں ہوا ہوگا کہ ایک بلوچ نوجوان جو کوئٹہ میں غائب ہوا ہو اور اسکے حق میں ملتان میں پوری یونیورسٹی کے طلبہ مل کر آواز بلند کر رہے ہوں۔ یہ طلبہ اتحاد کی واضح نشانی ہے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تمام طلبہ کے مسائل ایک جیسے ہیں لہٰذا لڑائی بھی مل کر لڑنی چاہیے۔ یہی فتح کا راستہ بھی ہے اور ضمانت بھی۔
یقیناًآج کے احتجاج سے بھی انتظامیہ بہت خفا ہوگی اور انتقامی کاروائی کا منصوبہ تیار کرنے کا سوچ رہی ہوگی۔ ایسی صورت حال میں آج طلبہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ طلبہ اتحاد ہی انکی حفاظت کرسکتا ہے اور آج کے احتجاج سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ طلبہ ایک ہو کر اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کر سکتے ہیں۔