ملتان: بی زیڈ یو انتظامیہ کے شدید دباؤ کے باوجود 8 مارچ کو اینٹی ہراسمنٹ مارچ کا انعقاد!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

8 مارچ کو محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی جانب سے ”اینٹی ہراسمنٹ مارچ“ کا انعقاد کیا گیا جس کو انتظامیہ نے مسلسل جبر اور غنڈہ گردی کے ذریعے روکنے کی کوشش کی اور مارچ میں شریک طلبہ کو ہراساں کیا۔

پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے بی زیڈ یو میں بڑھتی غنڈہ گردی، ہراسانی، فیسوں میں اضافے سمیت طلبہ کو درپیش دیگر مسائل کے خلاف اینٹی ہراسمنٹ مارچ کا اعلان کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں 4000 دعوت نامے طلبہ میں تقسیم کیے گئے۔ پی وائی اے کے کارکنان نے کلاس رومز میں جاکر طلبہ کو دعوت نامے دیے، ان سے بات چیت کی ا ور ہراسمنٹ جیسے سنگین مسئلے کے خلاف جدوجہد کی اہمیت پر زور دیا۔ طلبہ نے پی وائی اے کے اس اقدام کو سراہا، شمولیت کی یقین دہانی کروائی اور چندہ بھی دیا۔

مارچ کی پرزور کمپئین اور تیاریوں نے انتظامیوں کے کان کھڑے کر دیے اور انتظامیہ کو ایک خوف لاحق ہوا کہ اگر ان سنگین مسائل کے گرد طلبہ منظم ہوگئے تو ان کی جاری لوٹ مار اور پروفیسروں کا غلیظ کردار نہ صرف ننگا ہوگا بلکہ مستقبل میں ان کو یہ سلسلہ روکنا بھی پڑ سکتا ہے۔ ان ممکنہ خطرات سے خوف کھاتے ہوئے انتظامیہ نے اپنی بی ٹیم اسلامی جمعیت طلبہ کا ”حیا مارچ“ اسی وقت اور اسی مقام پر منعقد کروایا۔

جب پی وائی اے کے کارکنان اور طلبہ ہراسمنٹ مخالف مارچ کیلئے طے شدہ مقام پر اکٹھے ہوئے تو فوراً ہی انتظامیہ کی غنڈہ گرد فورس کو ئیک ریسپانس فورس کی جانب سے طلبہ پر حملہ کیا گیا اور پلے کارڈزا ور چارٹس چھین لیے گئے اور طلبہ کو ہراساں کیا گیا۔ مگر جب پی وائی اے کے کارکنان نے اس سب کے باوجود مارچ نہ روکا تو انتظامیہ اور اسلامی جمعیتِ طلبہ کے غنڈوں کی جانب سے مارچ میں شریک طلبہ پر حملہ کیا، طلبہ کو ہراساں کیا، کچھ کو گرفتار کیا اور سیکیورٹی چیف کی جانب سے طلبہ کو قتل تک کروا دینے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اس تمام تر بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے باوجود پی وائی اے کے کارکنان ڈٹے رہے اور مارچ مکمل کیا۔

مارچ پر انتظامیہ کا حملہ ا نتظامیہ کے طلبہ دشمن کردار کی عکاسی ہے اور واضح کرتا ہے کہ انتظامیہ ان مسائل کے خلاف حقیقی جدوجہد سے کس قدرخوفزدہ ہے۔ انتظامیہ کا یہ غلیظ اقدام اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ کیمپس میں جاری ہراسانی کے پیچھے یہ پروفیسر اور انتظامیہ کے غنڈے خود موجود ہیں اور تمام تر غنڈہ گرد گروہوں کو بھی یونیورسٹی انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان غنڈہ گرد عناصر کو صرف اس لیے پالا گیا ہے تاکہ یہ انتظامیہ کے تمام جرائم کی پردہ پوشی کریں اور طلبہ کے حقوق کی کسی بھی جدوجہد کو کچلنے میں استعمال ہوں سکیں۔

یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ طلبہ کو انتظامیہ سے کسی کارِخیر کی اُمید رکھنے کی بجائے خود منظم ہونا ہوگا اور ان تمام تر وحشی بھیڑیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ہم تمام طلبہ کو دعوت دیتے ہیں انتظامیہ کی اس لوٹ مار کے خلاف پی وائی اے کی اس جدوجہد میں شریک ہوں۔

8 مارچ کا دن محنت کش خواتین کی جدوجہد کی یادگار ہے۔ پوری دنیا میں اس دن کو عورت کے حقوق کی آزادی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے گھٹن زدہ سماج نے عورت کی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے۔ آج کے جدید دور میں جہاں خواتین ہر جگہ پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں وہیں ان کے اوپر جبر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان جیسے رجعتی سماج میں عورت کئی قسم کے جبر کا شکار ہے۔ ایک طرف تو مذہبی بیڑیوں نے عورت کو صرف گھر تک محدود کر دیا ہے اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام نے آزادی کے نام پر عورت کو ایک جنس میں بدل دیا ہے۔عورت کی آزادی کی جدوجہد کو ان سرمایہ داروں کے چندے پر چلنے والی این جی اوز نے اپنی جیبیں بھرنے کیلئے استعمال کیا ہے اور عورت کے اوپر ہونے والے جبر کو صرف مرد کی حکمرانی سے منسوب کر دیا ہے۔ عورت کی جدوجہد کو مرد کی جدوجہد سے بالکل کاٹ دیا ہے۔ اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عورت صنفی جبر کا شکارہے اور عورت کو مرد کے برابر حیثیت حاصل نہیں ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا عورت عورت کے برابر ہے؟ کیا حکمران طبقے کی عورت کی زندگی محنت کش طبقے کی عورت کی زندگی جیسی ہے؟۔

اس سوال کا جواب نہیں میں ہے، بالکل بھی محنت کش خواتین کی زندگی سرمایہ دار اور حکمران طبقے کی خواتین کی زندگی کے جیسی نہیں ہے۔ عورت پر جبر کی بنیادیں بھی اس طبقاتی نظام میں موجود ہیں۔ اصل مسئلے کی جڑ یہ استحصال پر مبنی سرمایہ داانہ نظام ہے جس کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ عورت کو محکوم رکھا جائے۔ انسانی تاریخ کی بڑی تحریکوں اور انقلابات میں خواتین کی جدوجہد کا اہم کردار رہا ہے ہر مقام پر خواتین نے اپنے محنت کش مرد ساتھیوں کے ساتھ مل کرجدوجہد کی ہے۔ آج بھی اس سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے اور صنفی، لسانی، قومی، مذہبی اور ہر طرح کے جبر کے خاتمے کیلئے مردوں اور خواتین کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی اور ایک ایسا سماج تعمیر کرنا ہوگا جو واقعی انسانی سماج کہلانے کے لائق ہو۔ جہاں کسی قسم کا کوئی جبر نہ ہو، جہاں کسی ماں کے سامنے اس کے بچے کو بے دردی سے قتل نہ کیا جائے، جہاں کوئی انسان کھانے کی قلت سے نہ مرے، جہاں پیدا ہوتی بچیوں کو قتل نہ کیا جائے، جہاں لوگ بھوک اور بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشیاں نہ کریں،جہاں سات سال کی بچیوں کے ریپ جیسے گھاناؤنے واقعات کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو۔آؤ ساتھیوں مل کر ایسے سماج کے تعمیر کی جدوجہد کریں تاکہ ہم آنے والی نسلوں کو ایک بہتر مستقبل دے سکیں۔

سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی۔۔۔!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.