فلم ری ویو: بھوپال: اے پریئر فار رین (Bhopal: A prayer for rain)

سرمایہ داروں کے لیے منافع خوری اولین ترجیح ہوتی ہے اور اس کے حصول میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ انہیں محنت کشوں اور عوام کی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور ان کی یہ لاپرواہی اکثر اوقات سانحوں کا باعث بنتی ہے۔ ایسا ہی ایک سانحہ 2 اور 3 دسمبر 1984ء کی رات بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں پیش آیا، جب ملٹی نیشنل کمپنی یونین کاربائیڈ کی کیڑے مار دوا بنانے والی صنعت سے انتہائی زہریلی گیس لیک ہوئی۔ یہ دنیا کا سب سے تباہ کُن صنعتی سانحہ تھا جس میں گیس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 5 لاکھ سے زائد جبکہ مرنے والوں کا اندازہ 16 ہزار تک لگایا جاتا ہے۔

2013ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’بھوپال: اے پریئر فار رین‘ اس سانحے کے پسِ منظر پر بنائی گئی ہے، جس میں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے اداکاروں نے کام کیا ہے۔ فلم میں فرضی کرداروں کے ساتھ حقیقی کرداروں کی تصویر کشی بھی کی گئی ہے۔ مرکزی کرداروں میں راجپال یادیو، کال پین، تانیشتا چترجی اور مارٹن شین شامل ہیں۔ راجپال یادیو نے صنعت میں ملازمت کرنے والے ایک محنت کش دلیپ کا فرضی کردار نبھایا ہے۔ کال پین نے ایک صحافی موٹوانی کا کردار نبھایا ہے جو صنعتی انتظامیہ کی لاپرواہی اور سانحے کے امکانات کی تحقیقات کرتا ہے۔ صحافی کا کردار دارصل راجکمار کیسوانی پر مبنی ہے، جس نے 1982ء سے ہی کارخانے میں غیر تسلی بخش حفاظتی انتظامات کے حوالے سے متعدد مضامین لکھے تھے۔ اسی طرح مارٹن شین نے یونین کاربائیڈ کے چیف ایگزیکٹیو ویرن اینڈرسن کا کردار نبھایا ہے، جسے سانحے کے بعد بھارتی عدالت نے مفرور قرار دیا تھا مگر پھر بھی وہ قانون کے لمبے ہاتھوں کی پہنچ سے دور رہا۔

فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ سیفٹی افسر کی بارہا تنبیہات کے باوجود انتظامیہ اس کو نظر انداز کرتی ہے۔ اگرچہ کارخانے میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے تمام انتظامات موجود ہوتے ہیں مگر پیسے بچانے کی خاطر ان کا استعمال روک دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب محنت کشوں پر دباؤ ڈال کر پیداوار بھی بڑھا دی جاتی ہے۔ ملازمت کرنے کے لیے آس پاس کی کچی آبادیوں سے محنت کش آتے ہیں جن کے پاس اپنی جانیں خطریں میں ڈال کر روزی کمانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ مزید برآں ان کی مناسب تربیت کے بھی کوئی انتظامات نہیں ہوتے اور نا تجربہ کار محنت کشوں سے سستے داموں کام کروایا جاتا ہے جس سے ان کی روزمرہ ضروریاتِ زندگی بھی پوری نہیں ہو پاتیں اور وہ قرضے لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت انتشار پر مبنی ہے۔ ذرائع پیداوار پر مٹھی بھر اقلیت قابض ہے جو مقابلے بازی کی دوڑ میں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ انسانوں کی اکثریت کی زندگی جینے کے قابل بنانے کے لیے تمام ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لے کر منصوبہ بند معیشت کے تحت چلانا لازمی ہے تاکہ منافعوں کے اوپر انسانی ضروریات کو ترجیح دی جا سکے، اور چاہے سانحہ بھوپال جیسے قتلِ عام ہوں یا روزمرہ کا معاشی قتلِ عام، ان واقعات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.