|رپورٹ: عرفان منصور، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری پی وائی اے|
اس وقت تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ انتہائی خوفناک مسئلہ بن چکا ہے۔ پروفیسر اور انتظامیہ کے بااثر اشخاص انتظامی اور تعلیمی عہدوں پر گِدھ کی طرح بیٹھے ہیں جو اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے آئے روز نمبروں اور ڈگری کے نام پر ہراسمنٹ کرتے ہیں۔ صرف اپنی مریضانہ خواہشات کی تکمیل کے لیے یہ ایک لڑکی یا لڑکے کی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں اور جب کوئی ان کے خلاف بات کرتا ہے تو یہ سب گِدھ اس کو نوچنے کے لیے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ یہ منظر آپ کو ہر ایک یونیورسٹی، ہر ایک کالج اور ہر ایک کام کی جگہ پر نظر آئے گا۔ یہ مسئلہ آج انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے جس کے خلاف جدوجہد کرنا وقت کی اشد ضرورت بن چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سامنے آنے والا جنسی ہراسمنٹ کا سکینڈل تعلیمی اداروں کی رگوں تک میں سرایت کر چکے اس مرض کی ایک علامت ہے۔ اس پہلے بلوچستان یونیورسٹی میں بھی ایسا ہی ایک سکینڈل دیکھنے کو ملا تھا جہاں انتظامیہ نے گرلز ہاسٹل کے واش رومز میں کیمرے لگا رکھے تھے اور طالبات کو بلیک میل کیا جاتا تھا۔
اس مسئلے کی روک تھام کیلئے ویسے تو ہر تعلیمی ادارے میں ایک اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی موجود ہے، مگر باقی تمام اداروں کی طرح یہاں بھی بلی دودھ کی رکھوالی کر رہی ہے۔ یعنی کہ ان کمیٹیوں میں وہی لوگ ہراسمنٹ کے مسئلے پر سزا و جزا کا فیصلہ کرتے ہیں جو بذات خود ملوث ہوتے ہیں۔ ان کمیٹیوں میں طلبہ کی صفر نمائندگی ہے۔ اسی طرح طلبہ یونین پر پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے طلبہ اپنے مسائل کے حل کیلئے کچھ بھی نہیں سکتے، جبکہ دوسری طرف کوئی سیاسی پارٹی یا تنظیم ایسی نہیں ہے جو اس اہم مسئلہ پر بات کررہی ہو۔ عمران خان، شریف اور بھٹو خاندان، قوم پرست پارٹیاں، مذہبی پارٹیاں اور ان کے طلبہ ونگ، سب اس سنجیدہ اور اہم ترین مسئلہ پر خاموش ہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی سمیت دیگر نام نہاد مذہبی جماعتیں الٹا طالبات کے پہناوے کو ان سکینڈلز کی وجہ بتا رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور انتظامیہ کے دیگر با اثر اشخاص کو بھی ان تمام سیاسی پارٹیوں اور بالعموم ریاست کی جانب سے سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی پروفیسر ہراسمنٹ کرتے ہوئے پکڑا بھی جائے تو عدالتیں اسے با عزت بری کر دیتی ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے سکینڈل میں ملوث کسی بھی مجرم کو آج تک سخت سزا نہیں ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان بھیڑیوں کو ریاستی پشت پناہی حاصل ہے۔ لہٰذا اب طلبہ کو ملک گیر سطح پر منظم ہو کر اس سنگین مسئلہ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔
ایسے میں پروگریسو یوتھ الائنس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہراسمنٹ کے خلاف ملک گیر سطح پر طلبہ کو منظم کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اس تحریک کا باقائدہ آغاز کل (31 جولائی 2023ء، بروز سوموار) ملک گیر احتجاج کی صورت میں کیا جائے گا۔
احتجاجی تحریک کا لائحہ عمل
اس مسئلے کا حل تب ہی ممکن ہے جب طلبہ منظم ہوں۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں نے طلبہ یونین جیسے ان کے بنیادی جمہوری حق پر بھی پابندی لگائی ہوئی ہے اور کسی بھی صورت اسے ختم نہیں کریں گے، بشرط یہ کہ طلبہ کی ایک ملک گیر احتجاجی تحریک شروع ہو جائے اور بزور طاقت اپنا جمہوری حق حاصل کر لے۔ تو کیا جب تک طلبہ یونین بحال نہیں ہوجاتی تب تک طلبہ خاموشی سے برداشت کرتے رہیں؟ ہر گز نہیں! طلبہ کو ہر تعلیمی میں ادارے خود آگے بڑھ کر اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ صرف بات کرنے سے یا ٹوکن احتجاج کرنے سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ہمیں ہر ایک یونیورسٹی کی ہر ایک کلاس تک پہنچ کر طلبہ کو منظم کرنا ہوگا۔ ہر ایک کلاس میں سے کسی ایک طالب علم کو نمائندے کے طور پر منتخب کرنا ہوگا۔ اس طرح ڈیپارٹمنٹس اور پھر پورے کیمپس کی سطح پر ان نمائندوں کی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ ایک شہر کی سطح پر، ضلع کی سطح پر، صوبے اور ملکی سطح پر ان کو آپس میں جوڑنا ہوگا۔ کراچی سے لے کر گلگت تک، تمام طلبہ کو آپس میں یکجہتی بنانی ہوگی اور مل کر ایک احتجاجی تحریک کا آغاز کرنا ہوگا۔ اس دوران جہاں جہاں احتجاج ہو رہے ہوں گے ان میں بھرپور شرکت کرنی ہوگی۔
ہراسمنٹ کا مستقل حل کیا ہے؟
مگر یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا اس ملک گیر تحریک سے ہراسمنٹ کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ ہو جائے گا؟ نہیں، مگر اس کے خاتمے کی جانب ایک بہت بڑا قدم ضرور ہوگا جو اس مسئلہ کی جڑ کے خاتمے کی چنگاری بنے گا۔ درحقیقت ہم جس سماج میں رہتے ہیں یہ پدر سری سماج ہے جو کہ پوری دنیا میں موجود ہے۔ اس سماج میں عورت محکوم ہے (بہر حال اس محکومی کا شکار محنت کش و مڈل کلاس خواتین ہیں نہ کہ حکمران طبقے کی خواتین)۔ اس پدر سری سماج کی بنیادیں در حقیقت ذاتی ملکیت اور طبقاتی سماج میں موجود ہیں، یعنی امیر اور غریب پر مبنی موجودہ سرمایہ دارانہ نظام۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے بغیر اس کا پورے سماج سے مستقل بنیادوں پر خاتمہ ممکن نہیں۔ اسی لیے ہمیں ہراسمنٹ کے مسئلے کے مستقل حل کیلئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک بھر کے طلبہ نے منظم ہو کر کوئی احتجاجی تحریک چلائی ہے تو وہ اپنے فوری مطالبات منوانے میں کامیاب ضرور ہوئے ہیں۔ ہاں، البتہ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ان مسائل کا مستقل حل نہیں نکل پاتا۔ اگرچہ وقتی طور پر کامیابی تو مل جاتی ہے مگر چونکہ ملک گیر سطح پر طلبہ کا آپس میں اتحاد قائم نہیں رہ پاتا اور محنت کشوں کیساتھ جڑت قائم نہیں ہو پاتی تو طلبہ تحریک کمزور ہو جاتی ہے اور ان سے لڑ کر جیتی گئی حاصلات بھی چھین لی جاتی ہیں۔ بہر حال ہر احتجاجی تحریک طلبہ کے سیاسی شعور میں اضافہ کرتی ہے اور انہیں ان کی طاقت کا احساس ضرور دلاتی ہے۔ یہی سیاسی شعور پھر طلبہ کو محنت کشوں کیساتھ جڑت بناکر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے پر بھی آمادہ کرتا ہے۔ لہٰذا طلبہ کے پاس ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کے علاوہ باعزت انداز میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا اور کوئی راستہ نہیں۔
پچھلے 75 سالوں سے پاکستان کے تمام سول و ملٹری حکمرانوں نے تعلیمی اداروں، میڈیا سمیت ہر ہتھیار کا استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو سیاست سے بالعموم اور محنت کش طبقے کی سیاست (یعنی انقلابی سیاست) سے بالخصوص دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ طلبہ و نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی ہے کہ سیاست کرنا ان کا کام نہیں، یہ تو بڑے بڑے سیاستدانوں کا کام ہے۔ اسی لیے ضیاء الباطل نے طلبہ یونین پر بھی پابندی لگائی تھی۔ مگر تمام تر ریاستی جبر کے باوجود 1968-69ء میں پاکستان کے طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں نے مل کر ایوب خان جیسے سفاک آمر کا تختہ الٹا تھا۔ آج ایک طرف ہراسمنٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو وہیں دوسری جانب مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، یقینا طلبہ اور محنت کشوں کے پاس لڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا۔ آج کسی بھی ایک تعلیمی ادارے کے طلبہ کی کوئی بڑی کامیابی پورے ملک کی طلبہ تحریک کیلئے ایک چنگاری کا کام کر سکتی ہے۔ ایسی چنگاری جو پھر سرمایہ دارانہ نظام کو ہی جلا کر راکھ کر ڈالے گی۔ مگر ساتھیو! یہ چنگاری خود بخود نہیں لگے گی، اسے ہمیں آگے بڑھ کر لگانا ہوگا۔ جینا ہے تو لڑنا ہوگا!