افسانہ: آس

|تحریر: مشعل وائیں |

شب کا اگلا پہر آن چڑھا تھا، ہر سو کالی گھٹاما یوسی کا پیغام لیے بھٹک رہی تھی۔ ہرسمت خون میں لتھڑی لاشیں ایک کے اوپر ایک پہاڑی کی شکل اختیار کیے ہوئے پڑیں تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان سے لاشیں برسی ہوں، خداجانے ان کے بزرگوں نے ایسے کون سے گناہ کیے تھے جن کی سزا ان بے چاروں کوبھگتنی پڑ رہی تھی۔ ایک جانب اونچے قہقہوں کی آواز آرہی تھی، جو قہقہے کم اور افسردہ چیخیں زیادہ معلوم ہوتی تھیں کہ جیسے کوئی مدد کو پکارتا ہو اور سننے والے پر یہ آوازیں سن کر خوف طاری ہوتا تھا۔ سفید داڑھی والا بڈھا کونے میں اکیلا بیٹھاتھا جس کا سارا جسم خون سے تر تھا، لگتا تھا کہ یہ ابھی خون کی ہولی کھیل کر آیا ہے۔ اس کے سامنے ایک چچوڑی ہوئی لاش پڑی تھی۔ بڈھے کی سفید داڑھی پر گاڑھے سرخ مادے کی ایک تہہ جم چکی تھی اور منہ سے ٹپکتے خون کو دیکھ کر یقین آجاتا تھا کہ اس نے اپنے پاگل پن اور بھوک میں اس مردہ انسانی جسم کو کھانا درست سمجھاتھا۔ ایک جانب دو آدمی، جو زندہ ڈھانچے معلوم ہوتے تھے، ان کی سیاہ کھردری کھال پر مٹی کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ وہ ایک گڑھاکھود رہے تھے۔ اس میں ان لاشوں کو ایک کے اوپر ایک پھینک رہے تھے۔ یہ ان کا پیشہ معلوم ہوتا ہے، اور جیسا کہ انسان روزگار کے لیے کوئی بھی حد پار کرسکتا ہے، اور ایک زندہ لا ش بھی بن سکتا ہے۔

ان کی شکل پر غور کریں تو ظاہریت میں لگتا تھا کہ خوف کا بھوت اس طرح چھا گیا کہ حسِ کلامی بھی الوداع کہہ کر رخصت ہوگئی۔ مالک آتے ہوں گے۔ ہمیں جلدی سے یہ صفایا کرنا ہوگا ورنہ وہ ہمارا بھی یہی حال کردیں گے۔ وہ لاشوں کو اٹھا کے ایک گڑھے میں پھینک رہے تھے جو کافی گہرا معلوم ہوتا تھا، اکثر لاشوں کے گل جانے کی وجہ سے نہایت بدبو آرہی تھی، اور مکھیوں کے بھن بھنانے کی آواز لاشوں سے بھرے شہر میں گونج رہی تھی۔ نوجوان لڑکی روشنی دور کھڑی یہ منظر تاڑ رہی تھی، اس کا خاندان تباہ ہوچکا تھا، اکیلی معجزاتی طور پر زندہ بچی تھی، اور عمر صرف سولہ برس تھی۔ جسم اس کا خوف سے کپ کپا رہا تھا۔ دل کر رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روئے، مگر مایوسی کا عالم یہ تھا کہ چاہنے کے باوجود اس کی آنکھ سے ایک قطرہ آنسو نہ ٹپکا۔

گڑھا کھودنے والوں میں سے ایک کی نگاہ اچانک اس پر پڑی، جو ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔ لڑکی بھاگ جا! جتنا دور بھاگ سکتی ہے بھاگ جا! لوٹنا نہیں! اور بھاگتے وقت مڑ کر پیچھے نہیں دیکھنا! ورنہ یہ موت تجھے بھی اپنے جال میں کھینچ لے گی! روشنی آگے بڑھ کر ان سے بات کرنا چاہتی تھی کہ قہقہے والا بڈھا ہاتھ میں ایک آری لیے اس پر وار کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ روشنی اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگنا شروع ہوگئی۔ اسے نہیں معلوم تھا کدھر جارہی ہے، اور کیا منزل ہے، بس بھاگتی چلی گئی۔۔۔تاریک سڑکوں پر ایک بھٹکتی روح کی طرح منڈلاتی راستے میں ٹھوکرکھا کر لڑکھڑا کر گر گئی، اس کا سر پتھر سے لگا اور بے ہوش ہو گئی۔ لاشوں سے بھری سڑک پر بے ہوش پڑی وہ بھی ایک لاش معلوم ہوتی تھی۔ کون جانتا تھا کہ یہ زندہ ہے یا مردہ۔ اٹھ لڑکی! یہ آواز سن کر اس نے آنکھیں کھولیں تو نیلے آسمان پر اڑان بھرتے پرندے اور طلوع آفتاب کا منظر دیکھ کر لگا کہ غم کا دور گزر گیا ہے، کاش ایسا ہی ہوتا! لیکن ہوش میں آکر پتہ چلا کہ صبح ہوگئی ہے۔ آسمان پر اڑان بھرتے پرندے گدھ تھے جو ان مردہ لاشوں کا جگر کھانے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اٹھ کر دیکھا تو لوگوں کا ایک ہجوم اس کے گردجمع تھا، سب کے چہرے پر اس کی کھلی آنکھیں دیکھ کر ایک مسکراہٹ تھی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔

روشنی کی سمندر آنکھوں کی لہروں میں ہزاروں شعلوں کی چمک سدا بہار تھی۔ کون ہو تم؟ یہ سب کیا ہے؟ لوگ مر کیوں رہے ہیں؟ مجھے خدا را اپنے ساتھ لے چلو! میں مرنا نہیں چاہتی۔ بیٹا! فکر نہ کرو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ شام لمبی ضرور ہے لیکن ٹل جائے گی۔۔۔ہم مل کر اس کے خلاف لڑیں گے۔ لیکن یہ راکھشس کون ہے، جس نے یہ تباہی مچائی ہوئی ہے؟ تمہیں سب بتائیں گے۔۔۔ابھی چلو ہمارے ساتھ (ایسا نہیں تھا کہ یہ لوگ خوفزدہ نہ تھے، وہ چھوٹی بچی کی وجہ سے اپنے جذبات قابو میں کیے ہوئے تھے)۔۔۔یہ لوگ اسے اپنے ساتھ اپنی رہائش گاہ لے گئے جو کہ ایک عالی شان عمارت تھی، اس عمارت کی بے شمار منزلیں تھیں۔ اس نے وہاں دیکھا تو لوگوں کی حالت پہلے والوں سے بالکل مختلف معلوم ہوتی تھی۔ اچھے لباس اور خوبصورت دکھنے والے بے فکر لوگ۔ جیسے انہیں کسی بھی آفت کی کوئی خبر ہی نہ تھی۔ روشنی ان لوگوں کو حیرت زدہ نظروں سے رک کر دیکھنے لگ گئی۔ چلو بیٹا یہاں رکنا منع ہے۔۔وہ اسے ساتھ لے کر نیچے تہہ خانے کی جانب بڑھ گئے۔

جیسے جیسے نچلی منزل کی جانب قدم بڑھانا شروع کیا، اسے سرد آہوں اور درد ناک چیخوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ ان میں انسانوں کی آوازیں تو تھیں، لیکن ساتھ ہی جانوروں کی آوازیں بھی معلوم ہوتی تھیں۔ روشنی کے پپوٹے کھلے تھے، ڈھیلے سکڑ گئے تھے، جلد پر بال کھمبے کی طرح کھڑے تھے، اور دل کی دھڑکن یوں تھی کہ دھڑکتے دھڑکتے جسم سے باہر آجائے گا۔ مگر اس نے آہ تک نہ کی اور کھڑی سب دیکھتی رہی۔ یہ ایک گوشت کا کارخانہ معلوم ہوتا تھا، جہاں جانوروں کو مسلسل ذبح کیا جا رہا تھا، اور ان کا قیمہ بنایا جاتا تھا۔ یہاں جو لوگ کام کر رہے تھے کسی کا ہاتھ نہیں تھا، کسی کا بازو اور کئی لوگوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ اکثر لوگوں کے ہاتھ پاؤں گوشت کی کٹائی میں کٹ جاتے لیکن یہ گوشت ضائع تھوڑی کرنا تھا، اس کو بھی قیمہ بنا کر پیکٹ میں لپیٹ دیا جاتا تھا۔

یہ ہماری رہائش گاہ ہے، اور ہماری قسمت! تم کو بھی ایسی ہی زندگی گزارنی ہے۔ روشنی جو اوپر والی منزلوں پر مناظر دیکھ کر آئی تھی بھلا نہ پائی تھی۔ بابااوپر جو لوگ تھے وہ کون تھے؟ ان کی زندگی ہماری طرح دردناک اور کپڑے ہماری طرح خون آلود کیوں نہیں ہیں؟ جیسے انہیں کسی راکھشس کی خبر ہی نہیں۔ ویسے انکل یہ راکھشس کون ہے؟ اور وہ کتنے لوگوں کی جانیں لے کر دم لے گا۔ سن، اس راکھشس کو ہم میں سے کسی نے نہیں دیکھا آج تک، لیکن مالک کا کہنا تھا کہ اگر ہم صحیح طرح کام نہ کریں گے تو وہ ہمیں بھی اس راکھشس کے آگے ڈال دے گا۔ تو بھی اب ہم میں سے ایک ہے، زندگی چاہتی ہے تو لگ جا کام پر۔

روشنی جو ہمیشہ سے چیزوں کو لے کر متجسس رہتی تھی، اسے ایک اور موضوع مل گیا تھا۔۔۔باقی لوگوں کو کام پر لگا دیکھ کر خود بھی شروع ہوگئی۔۔۔کرتے کرتے رات ہوگئی، سب لوگ کام چھوڑ کر سو گئے، سوائے چند ایک کے جو ایک کونے میں دائرہ بنائے بیٹھے تھے۔ نیند تو پہلے ہی اسے نہیں آرہی تھی۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ان میں جاکر بیٹھ گئی۔ ان میں سے ایک نوجوان جس کا جسم فولاد کی طرح مضبوط اور محنت کرنے کے باعث رنگ تانبے کی طرح سرخ ہو رہا تھا، اپنے ساتھیوں سے مخاطب تھا۔ یہ ہمارا راہنما ہے، روشنی کے ساتھ بیٹھی ایک عورت نے اس کو بتایا۔ اس کا نام آزاد ہے۔ روشنی اس کی جانب متوجہ ہو گئی۔ وہ کہہ رہا تھا، یہ بہت بڑا راکھشس ہے، لیکن ایسابھی کوئی امردیوتا نہیں جس کو ہم ختم ہی نہیں کر سکتے۔ اس سے پہلے بھی کئی راکھشس آئے تھے، لیکن ان کو بھی لوگوں نے مل کر ہی ختم کیا۔ یہ باقیوں کی نسبت کافی بڑا ہے، اس کا قد بارہ فٹ لمبا ہے اور دانت ایسے نوکیلے ہیں کہ چھوتے ہی انسان کا نرم ماس پھٹ کر ایک خون کی آبشار بہہ جاتی ہے۔ یہ راکھشس کہاں سے آتے ہیں؟ روشنی نے پوچھا۔ یہ راکھشس اوپر کی پیداوار ہیں، جب بھی نیچے کوئی کام کرنے سے انکار کرتا ہے، یا بغاوت کرتا ہے تو اسے اس راکھشس کے آگے ڈالنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور بہت سوں کو اس کے آگے ڈال بھی دیا گیا ہے۔ ہم یہاں یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمیں اس راکھشس کا مقابلہ کرنا ہوگا، ہماری تعداد بہت زیادہ ہے، ہم ہزاروں ہیں اور اوپر والے صرف دو تین سو لوگ ہیں۔ ہم میں سے کچھ چپکے سے راکھشس کو تباہ کرنے جائیں گے، اب سوال یہ ہے کہ راکھشس بہت مضبوط ہے، لیکن اس کی آنکھ ایک ہی ہے۔ اور یہ اس کی ایک ایسی کمزوری ہے جس پر ہمیں وار کرنا ہوگا، اس ایک ہی وار سے وہ اندھا ہوجائے گا۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں اس کو پہلے شراب کے نشے میں لَت کرنا ہوگا، اس سے وہ مد ہوش ہوجائے گا۔ اسی مدہوشی کے عالم میں ہم اس کا قتل کردیں گے۔ ہمیں اوپر والوں کی طرف سے تکلیف کم کرنے کے لیے جو شراب دی جاتی ہے، وہ ہم اس راکھشس کو یوں پیش کریں گے کہ وہ سمجھے گا مجھے رشوت دے رہے ہیں۔ اس کے لیے ہم سب کو اپنے حصے کی شراب جمع کرنی ہوگی۔ لیکن ایک بات کا دھیان رہے کہ مرتے وقت یہ راکھشس کافی شور مچائے گا اور اس سے اوپر والے چوکنا ہوجائیں گے اور ہماری جانب وار کرنے آئیں گے۔ ہمیں اس کا بھی انتظام پہلے سے کر کے رکھنا ہوگا۔ میرے ساتھیو، ہم حقیقت میں ان اوپر والوں سے کئی گنا زیادہ طاقت ور ہیں۔ ہمارے یہ اعضاء جن کو بس رات کی کچھ دیر کے لیے فرصت ملتی ہے، کام کر کر کے بہت مضبوط اور تیز ہوگئے ہیں۔ ہمیں خود پر یقین کرنا ہوگا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ شور مچا کر ان کی توجہ اپنی جانب متوجہ کروا لیں گے، اس دوران ساتھیو ہمیں جاکر ان پر وار کرنا ہوگا۔

روشنی یہ سب سن کر بہت خوش ہورہی تھی، اسے ایک امید نظر آرہی تھی۔ اس کو آزاد اس کی باتوں سے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں بھی اس جنگ میں تم لوگوں کے ساتھ ہوں! لوگوں کو اکٹھا کرنا ہو یا اس راکھشس پر وار کرنا ہو، جو آپ کا حکم ہو مجھے منظور ہے۔ سب نے مڑ کر روشنی کی جانب دیکھا، جو صرف سولہ برس کی تھی اور اس کی سدا بہار شعلوں سے چمکنے والی آنکھوں میں ہمت اور جرات دکھائی دے رہی تھی۔

 

Tags: ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.