|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی بہت نقصان ہو رہا ہے۔ اس تعلیمی بحران میں پورے ملک کے طالبِ علموں کو ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تعلیمی نقصان کو پورا کرنے کے لئے یونیورسٹیاں ایک متبادل، واضح اور موثر نظام تعلیم لانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں اور آن لائن کلاسز کے نام پر طلبہ کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی کے طالب علموں کی اکثریت اس ناکارہ آن لائن سسٹم کی مخالفت کر رہی ہے مگر انتظامیہ روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور طلبہ کے سوشل میڈیا پر احتجاج کے باوجود بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی۔ بہت سی ٹھوس وجوہات ہیں جن کی بنا پر آن لائن کلاسز کو روکا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی نے آن لائن پورٹل بنایا ہے مگر کیا یہ سب مسائل کا حل ہے؟ اس کو استعمال کرنے کے لیے مہنگے نیٹ پیکجز اور لیپ ٹاپس کی عدم دستیابی کو کیسے پورا کیا جائے گا؟ اسلامیہ یونیورسٹی جنوبی پنجاب میں ہے اور اس خطے کی عوام پہلے سے ہی پسماندگی کا شکار ہے۔ طلبہ کی اکثریت دیہی علاقوں سے ہے جہاں پر انٹرنیٹ کی سہولیات نہیں ہیں اور جن علاقوں میں انٹرنیٹ دستیاب ہے وہاں ویڈیو لیکچرز میں آواز واضح نہ ہونے کے باعث کچھ بھی سمجھ نہیں آ سکتا۔
فاٹا اور بلوچستان کے بہت سے طلبہ اس یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں جو کہ اب اپنے آبائی علاقوں میں ہیں اور ان جگہوں پر انٹرنیٹ کی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ ٹیچرز واٹس ایپ پر پی ڈی ایف فائلز میں کورس میٹریل شیئر کر کے اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جاتے ہیں جس سے پڑھائی جاری رکھنا ناممکن ہے۔ طلبہ بار بار اپنے اساتذہ اور انتظامیہ کو اپنے ان مسائل سے آگاہ کر رہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں ہے۔
اگر ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جاتا ہے تو طالب علموں کو ناقابلِ تلافی تعلیمی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
یونیورسٹی کے پاس ایک اور آپشن یہ ہے کہ گرمیوں کی جو چار مہینے کی چھٹیاں ہوتی ہیں وہ منسوخ کر کے سمر سمیسٹر لگایا جا سکتا ہے اور اب 31 مئی تک سمیسٹر بریک دیا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی کے طلبہ اس غیر یقینی صورت حال کے باعث بہت پریشان ہیں مگر کسی کو ان کی فکر نہیں ہے۔
اس لیے پروگریسو یوتھ الائنس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ آن لائن کلاسز کے نام پر جاری اس شعبدہ بازی کو روکا جائے اور وسائل مہیا کر کے پھر ان کلاسز کا آغاز کیا جائے۔