|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، گوجرانوالہ |
آج پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس شعبہ قانون فائنل ایئر کی طالبہ اپنے بھائی کے ساتھ پروفیسرز کالونی سے پنجاب یونیورسٹی کے گوجرانوالہ کیمپس میں جانے کے لیے موٹر سائیکل پر نکلی تھی۔ جس کو کسی گاڑی نے معافی والا چوک کے قریب ٹکر ماری جس سے طالبہ اور اس کا بھائی موٹر سائیکل سے نیچے گر پڑے اور ساتھ ہی پیچھے سے آنے والے ایک ٹرک نے طالبہ کو کچل دیا اور وہ موقع ہی پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
ویسے تو یہ ان حادثات میں سے ایک حادثہ ہے جو ہر روز ہماری سڑکوں پر پیش آتے ہیں۔ لیکن یہاں ہمیں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے منعقد کیے جانے والے چند سال قبل کے احتجاجوں پر بھی ایک نظر دوڑانی چاہیے۔ جس میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے گوجرانوالہ کے لیے ایک الگ یونیورسٹی کا مطالبہ کیا تھا اور اس مطالبے پر حکمرانوں کی جانب سے یونیورسٹی ”بنانے“ کی سازش کا بھانڈا پھوڑا تھا، جس پر پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے ”500 روپے کی یونیورسٹی نامنظور“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ کیونکہ حکومت 500 روپے کا ایک بینر لگا کر پہلے سے بنی بنائی یونیورسٹی کے ایک کیمپس کو گوجرانوالہ یونیورسٹی کا نام دے رہی تھی۔
اس احتجاج میں یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے ٹیچرز اور دوسرے ملازمین نے بھی شرکت کی تھی۔ اس احتجاج میں طلبہ نے گوجرانوالہ کی اپنی ایک یونیورسٹی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ مزید تین مطالبات رکھے تھے۔ جن میں پہلا مطالبہ طلبہ کے لیے یونیورسٹی کی اپنی ٹرانسپورٹ کی فراہمی کا تھا، دوسرا مطالبہ یونیورسٹی میں دور سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل کی فراہمی کا تھا اور تیسرا مطالبہ راجکوٹ کی جانب سے پیدل سڑک پار کرنے والے طلبہ کے لیے یونیورسٹی کے سامنے ایک اوورہیڈ برج کی تعمیر تھا تاکہ طلبہ اوورہیڈ برج کے ذریعے سڑک پار کر کے بحفاظت یونیورسٹی پہنچ سکیں اور واپس جا سکیں۔
اُس وقت یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے آخری تین مطالبات کو پس پشت ڈالا گیا اور صرف پہلے مطالبے پر ہی فوکس کیا گیا۔ تب پہلے ہی احتجاج پر سرکار نے گھٹنے ٹیک دیے تھے اور نئی یونیورسٹی کی ڈیمانڈ کو منظور کر لیا تھا۔ لیکن یہ باقی کے تینوں مطالبات حکومت کو اور اس کے چاہنے والوں کو پسند آئیں یا نہ آئیں، سو فیصد حقیقی مطالبات تھے۔ آج کا یہ حادثہ بھی انہی مطالبات کے نہ دہرائے جانے اور نہ پورے ہونے کا ہی شاخسانہ ہے۔ وہ اس طرح سے کہ ہاسٹل نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار طلبہ دور دراز کے دیہات سے روزانہ سفر کرنے پر مجبور ہیں اور اتنی خطرناک ٹریفک میں روزانہ سفر کرنا طلبہ کے لیے انتہائی خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسرے یہ کہ اوورہیڈ برج نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کے وہ تمام طلبہ سڑک کو انتہائی خطرناک جگہ سے پار کرنے پر مجبور ہیں جہاں بہت ہی تیز رفتار ٹریفک چل رہی ہوتی ہے اور خاص طور پر طالبات کا سڑک پار کرنے کا تجربہ میل طالب علموں کی نسبت کم ہی ہوتا ہے۔ ہمارا تیسرا مطالبہ یونیورسٹی میں بسوں کی فراہمی کا تھا کہ طلبہ کو آنے اور جانے کی سہولت بذریعہ بس فراہم کی جائے لیکن یونیورسٹی کی انتظامیہ نے
ان مطالبات کو سامنے آنے سے روک دیا۔
پچھلے سال بھی بزنس ایڈمنسٹریشن کا ایک طالب علم اسی طرح جان بحق ہوا تھا اس کے علاوہ بھی کچھ حادثات ہیں جو طلبہ کے یونیورسٹی آنے جانے کے دوران ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی کی اپنی ٹرانسپورٹ کے ہونے کی صورت میں ان حادثات سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کے مطابق ٹرانسپورٹ کا اور بہتر ٹرانسپورٹ کا مطالبہ ہی غیرقانونی ہے۔ اس مطالبے پر ہمارے طلبہ کی پہلے بھی یونیورسٹی میں پیشیاں ہو چکی ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ہونے والے ان تمام حادثات کی شدید مذمت کرتا ہے اور ان حادثات کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ اور حکمرانوں کو قصوار سمجھتا ہے۔ حکمران طبقہ جو تعلیمی بجٹ میں ہر سال کٹوتیاں کرتا ہے، تعلیمی بجٹ 2 فیصد مختص کیا جاتا ہے اور بجٹ کے سب سے بڑے حصے سے فوج کو نواز کر تعلیمی بحران کا سارا بوجھ طلبہ پر ڈالا جاتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ ہر سال طلبہ کی فیسوں میں بے تہاشا کرتی ہے مگر طلبہ کو ان کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بالکل ناکام ہے۔ ان حادثات میں موت کا شکار ہونے والے تمام طلبہ کی قاتل یونیورسٹی انتظامیہ اور یہاں کا حکمران طبقہ ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے مندرجہ بالا تمام مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے اور طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ آج جس طرح پورے پاکستان میں طلبہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے متحد اور منظم ہو رہے ہیں، اسی طرح پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس کے طلبہ کو بھی ایک بار پھر اپنے مطالبات کے لیے متحد اور منظم ہو کر لڑنا چاہیے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کے مطالبات کو نظر انداز کر کے طلبہ دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ اگر آج طلبہ نے متحد ہو کر اپنے یہ مطالبات نہ منوائے تو مستقبل میں نہ جانے کتنے طلبہ ان حادثات کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ طلبہ متحد ہو کر اور ایک منظم لڑائی کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ اور حکمران طبقے کو گھٹنے پہ مجبور کر سکتے ہیں اور اپنے دیگر مسائل کے خلاف بھی اسی طریقے سے لڑ سکتے ہیں۔