|رپورٹ: ولی خان|
مورخہ 12نومبر بروز ہفتہ پریس کلب کوئٹہ میں انقلابِ روس کی 99 ویں سالگرہ کے حوالے سے ریڈ ورکرز فرنٹ (RWF) اور پروگریسو یوتھ الائنس (PYA ) کے زیرِ اہتمام ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت کراچی سے آئے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ کے رہنما پارس جان نے کی جبکہ نیشنل پارٹی (حئی) کے چیئرمین اور معروف قوم پرست بلوچ رہنما ڈاکٹر عبدالحئی تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ رزاق غورزنگ نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیئے۔ تقریب کے شرکا میں ٹریڈ یونین کارکنان، BSO اورPSF پشتون کے ممبران کی بڑی تعداد اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دیگر سیاسی ورکر شامل تھے۔
تقریب کا با قاعدہ آغاز کرتے ہوئے رزاق غورزنگ نے انقلابِ روس کے حوالے سے مختصر تعارف پیش کیا۔ بعد ازاں مقررین نے اس عظیم واقعے کی اہمیت اور آج کے عہد میں اس کی افادیت پر بات کی۔ مقررین میں فارماسسٹ ایسوسی ایشن(PPA) کے جوائنٹ سیکرٹری گلاب خان، پشتو ادبی غرزنگ کے رہنما صادق ژڈک، عوامی نیشنل پارٹی(ANP ) کے ضلعی صدر ابراہیم کاسی، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن(BSO) (پجار) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بلاول بلوچ اور پروگریسو یوتھ الائنس (PYA ) کے صوبائی رہنما کریم پرہار شامل تھے۔
ابراہیم کاسی نے لینن اور بالشویک پارٹی کو خراجِ عقیدت پیش کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ اب دنیا اور بالخصوص اس خطے کی سیاست یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور بنیاد پرستوں کا راستہ روکنے کے لئے امریکہ اور دیگر لبرل قوتوں کی حمایت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکرٹری گلاب خان نے ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھیوں کو کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مبارکباد دی اور آئندہ بھی ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ صادق ژڈک نے انقلابِ روس کی اہمیت کو اجاگر کیا مگر ساتھ ہی تاجکستان کے قومی مسئلے پر بالشویکوں کی پالیسی پر تنقید بھی کی۔
بلاول بلوچ نے ریاست کی طرف سے مظلوم قومیتوں کے اوپر جاری جبر اور بالخصوص بلوچستان آپریشن کی آڑ میں سیاسی کارکنان اور معصوم اور نہتے شہریوں کو زدو کوب کرنے کے عمل کی شدید مذمت کی اور کہا کہ مظلوم قومیتوں کے سیاسی کارکنوں کے لئے انقلابِ روس آج بھی مشعلِ راہ ہے اور لینن کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہی قومی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ کریم پرہار نے نئی نسل کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا اور محنت کش طبقے کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹر عبدالحئی نے تقریب کا انعقاد کرنے والے نوجوانوں کو سراہا اور ماضی میں بائیں بازو کی جدوجہد اور خامیوں، کوتاہیوں کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کسانوں، ہاریوں، ٹریڈ یونینوں اور طلبہ میں بائیں بازو کی قوتیں مقبول کیوں نہیں ہو پا رہیں۔
تقریب کے صدر کامریڈ پارس جان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے انقلابِ روس کی بنیاد میں کارفرما مارکسی نظریات کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لبرل، سیکولر دوست بنیاد پرستی سے نمٹنے کے لئے جس امریکہ کی حمایت کرنے کی بات کرتے ہیں اس امریکہ کے اندر خود ایک بنیاد پرست، شاونسٹ اور ذہنی مریض قسم کے شخص کا برسرِ اقتدار آنا نہ صرف لبرل ازم بلکہ خود بورژوا جمہوریت کے منہ پر زور دار طمانچے سے کم نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مکافاتِ عمل ہے اور اس سے گرتی ہوئی عالمی معیشت کو مزید دھچکا لگے گا جو بحران کو انہدام میں تبدیل کر سکتا ہے۔ انہوں نے آج کے عہد کے کردار اور اس عہد میں مارکسزم کی واحد قابلِ عمل نظریے کے طور پر اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی مسئلے کو مارکسی بنیادوں پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں جو کمیونسٹ قومی مسئلے کے وجود سے انکار کرتے ہیں وہ کبھی سماج میں کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا نہیں کر سکتا۔ کسی بھی مظلوم قومیت پر جاری جبر کی مذمت اور اس کے خلاف مزاحمت کئے بغیر کوئی سچا کمیونسٹ نہیں ہو سکتا مگر ساتھ ہی تمام مظلوم قومیتوں کو دنیا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد میں شامل کرنے کی کوشش بھی کمیونسٹوں کا اولین فریضہ ہے۔ قوم پرستی بورژوا انقلاب کا نظریہ تھا جو اب معدوم ہو چکا اب بین الااقوامی نظریئے کی ضرورت ہے جو مارکسزم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ آخر میں سٹیج سیکرٹری رزاق غورزنگ نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا اور محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر تقریب کا با قاعدہ اختتام کیا گیا۔