|رپورٹ: سدرہ اسلم|
کرونا وباء کے بعد تعلیمی ادارے بند ہونے کے باعث تعلیمی اداروں نے یہ کِہ کر کہ طلبہ کی پڑھائی کا حرج نہ ہو، آن لائن کلاسز کا آغاز تو کر دیا لیکن اس سے بھی سب سے زیادہ نقصان طلبہ کا ہی ہوا۔ کیونکہ کسی بھی تعلیمی ادارے نے طلبہ کو آن لائن کلاسز کے لیے کسی قسم کی کوئی سہولت فراہم نہیں کی نہ ہی یہ سوچا کہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیسے آن لائن کلاسز لے سکیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں کا طلبہ کے لیے فکر مند ہونے کا دعویٰ طلبہ کے ساتھ صرف دھوکہ تھا، اصل مقصد ان سے فیسیں اینٹھنا تھا۔ طلبہ کی ایک بڑی تعداد جو پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، ایسے طلبہ کے پاس انٹرنیٹ تو دور کی بات سمارٹ فون بھی نہیں ہوتا اور جن طلبہ کے پاس موبائل ہوتا ہے وہ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے آن لائن کلاسز نہیں لے سکتے۔ پاکستان میں ایسے بھی کئی علاقے ہیں جہاں سرے سے موبائل سروسز ہی دستیاب نہیں ہیں۔
پہلے سے معاشی بد حالی کے شکار والدین کے لیے انٹرنیٹ پیکجز کا بوجھ برداشت کرنا بھی بے حد مشکل تھا۔ مزید یہ کہ طلبہ سے ناجائز طور پر فیسیں بھی وصول کی گئی ہیں اور پہلے سے بد حال محنت کش طبقے کا معاشی استحصال کر کے بھی یونیورسٹی مافیہ کے پیٹ کی آگ نہیں بجھی۔ اب جیسا کہ پنجاب یونیورسٹی نے اس سال فیسوں میں 3 گنا اضافے کا اعلان کر دیا ہے اور اسی کے ساتھ آن لائن داخلے کا بھی اعلان کیا ہے جس کے مطابق داخلے کے لیے ایک چالان فارم کی فیس 700 روپے ہے اور ایک چالان فارم سے صرف ایک ڈیپارٹمنٹ میں داخلے کی درخواست دی جا سکتی ہے۔ ہر سال بہت سے طلبہ داخلہ لیتے وقت چالان فیس جمع کرواتے ہیں اور ایک سے زیادہ ڈیپارٹمنٹس میں جمع کرواتے ہیں۔ کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ جو طالب علم جس ایک ڈیپارٹمنٹ کی چالان فیس جمع کروائے اس کا اسی ڈیپارٹمنٹ کی میرٹ لسٹ میں نام آ جائے اور اس کا داخلہ اسی ڈیپارٹمنٹ میں ہو جائے۔ زیادہ تر طلبہ ایک سے زیادہ ڈیپارٹمنٹ میں اپلائی کرتے ہیں تو اس لحاظ سے اگر ایک طالب علم کم از کم 4 ڈیپارٹمنٹس میں بھی داخلہ فارم جمع کرواتا ہے تو اس کی کُل فیس 2800 بنے گی۔ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والا طالب علم یہ فیس آرام سے ادا کر سکتا ہے لیکن پنجاب یونیورسٹی میں زیادہ تر محنت کش طبقے کے طالب علم ہی پڑھتے ہیں اور اب جب محنت کش طبقہ شدید بے روزگاری کا شکار ہے تو اس کے لیے یہ فیس برداشت کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ ایسے حالات میں ایک محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والا طالب علم کیا کرے گا؟ اس کا مستقبل تو صرف اس لیے تباہ ہو جائے گا کہ اس کے پاس چالان فیس جمع کروانے تک کے پیسے نہیں ہیں۔ اگر کسی طالب علم کے نمبر بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن یونیورسٹی کی پالیسی اسے اجازت نہیں دیتی کہ وہ چالان فارم کی یہ بھاری فیس ادا کیے بغیر داخلہ لینے کی ناکام کوشش ہی کر لے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاک ڈاؤن کے بعد حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے فیسیں کم کرتی لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ریاست نے طلبہ دشمنی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے طلبہ فیس ادا نہ کر پانے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گے۔ حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ان طلبہ دشمن اقدامات سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ انہیں طلبہ کے مستقبل کی کتنی فکر ہے اور اس فیصلے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس فیسوں میں ہونے والے اضافے کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ فیسوں میں کیے گئے ناجائز اضافے کو فی الفور ختم کیا جائے اور اس کے ساتھ داخلہ فارم کی فیس کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو طلبہ اپنے حق کے لیے احتجاجی راستہ اختیار کریں گے۔ پروگریسو یوتھ الائنس نے ہمیشہ طلبہ یونین کی بحالی کا پُر زور مطالبہ کیا ہے اور ایک بار پھر طلبہ کو باور کرواتا ہے کہ طلبہ یونین کے ہوتے حکومتی ادارے اور یونیورسٹی انتظامیہ فیسوں میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ملک بھر کے طلبہ کو طلبہ یونین کی بحالی کے لیے تمام تفرقات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے یکجا ہو کر لڑنا ہو گا تاکہ کوئی بھی طلبہ کے حقوق کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کرے۔