|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بی زیڈ یو|
5 اپریل 2019 ء بروز جمعہ صبح 2 بجے کے قریب بہا ء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پولیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کی جانب سے تمام بوائز ہاسٹلوں پر چھاپے مارے گئے۔ ہاسٹلوں کے اندر اونچی اونچی آوازیں نکال کر طلبہ کو حراساں کرنے کی کوششوں کیساتھ ساتھ ایک ایک کمرے میں جا کر انتہائی بدتمیزی کے ساتھ تلاشی لی گئی۔ بالخصوص پشتون اور بلوچ طلبہ کے کمروں میں جا کر سارے سامان کو اٹھا اٹھا کر پھینکا گیا۔ الماریوں میں سے ہر شے کو نکال کر زمین پر پھینکا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ طلبہ کے پاس سلیبس سے ہٹ کر جو بھی کتاب ملی اسے ضبط کر لیا گیا۔ اس سارے عمل کے دوران پولیس والوں کی جانب سے طلبہ کو بے دھڑک گالیاں نکالی جاتی رہیں اور مسلسل تذلیل کی جاتی رہی۔ یہ سلسلہ صبح 4 بجے تک جاری رہا۔ اسکے بعد کچھ کمروں سے ان طلبہ کو حراست میں لے لیا گیا جن کی الاٹمنٹ نہیں تھی۔ یہاں ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ وہی پشتون اور بلوچ لڑکے تھے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے بھی الاٹمنٹ کے مسئلے کیلئے ہی احتجاج کیے تھے جن کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے انہیں یہ کہا گیا تھا کہ وہ تب تک بغیر الاٹمنٹ کے یہاں رہ سکتے ہیں جب تک لاہور کیمپس والے واپس نہیں چلے جاتے (کیونکہ ایک ہاسٹل میں انہیں رکھا گیا ہے اور انتظامیہ کے بقول مزید طلبہ کیلئے جگہ نہیں)۔
جن طلبہ کو حراست میں لیا گیا وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی نا اہلی کے شکار طلبہ ہی تھے۔ جب پولیس طلبہ کو گاڑیوں میں ڈال کر ساتھ لے جانے لگی تو طلبہ کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور پولیس کو روکا گیا، جس کی بدولت بالآخر پولیس کو تمام طلبہ کو چھوڑنا پڑا۔ جبکہ دوسری جانب جمیعت کے نمائندگان کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اس طرح کے آپریشنوں کی حمایت کرتے ہیں اور منشیات سمیت راڈ وغیرہ پولیس کو ملے ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کیساتھ ملی بھگت کر کے ان لڑکوں کو چھڑوا لیا ہے جن کے کمروں سے یہ سب کچھ برآمد ہوا ہے۔ جبکہ تمام تر زیر حراست طلبہ صرف وہی بلوچ اور پشتون تھے جن کی الاٹمنٹ کا مسئلہ تھا۔ جمیعت نے یہاں ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف انتظامیہ کے ایک دھڑے کی پالتو تنظیم ہے (مخصوص حالات میں دونوں دھڑوں کی بھی نمائندہ بن جانے کی اہلیت موجود ہے خاص طور پر جب طلبہ کسی حقیقی مسئلہ پر احتجاج کر رہے ہوں تو اس احتجاج کو ختم کرانے کیلئے چونکہ انتظامیہ کے دونوں دھڑے ایک ہو جاتے ہیں لہذا انکے پالتو غنڈے بھی) بلکہ طلبہ دوستی کا ناٹک کرنے والی سب سے بڑی طلبہ دشمن تنظیم ہے۔جس کا مقصد صرف یہی ہے کہ اپنے تنظیمی ممبران کے تمام جائز و ناجائز کام انتظامیہ سے کروائے اورا سکے بدلے میں انتظامیہ کے کام کرے (طلبہ کے احتجاجوں کو خراب کرنا اور کیمپس میں خوف کا ماحول پیدا کرنا)۔
یہاں کچھ باتیں انتہائی غور طلب ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یونیورسٹی کے اندر شہر کی پولیس کیسے گھسی جب یونیورسٹی کی اپنی سکیورٹی موجود ہے؟ کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ یونیورسٹی کی سکیورٹی نا اہل ہے اور اسے کچھ نہیں پتہ کہ کیمپس میں کیا ہو رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ان پر اتنا خرچہ کس بات کا؟ انکی تنخواہیں بھی تو عام طلبہ کی جیبوں سے ہی جاتی ہیں! ختم کرو اسے پھر۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ کیمپس کے اندردہشتگرد گھس آئے تھے اور ماحول اس قدر خطرناک ہو گیا تھا کہ کئی طلبہ کی جانوں کو خطرہ تھا تو چلیں پھر بھی یہ بات سمجھ آتی ہے مگر ایسا یو کچھ بھی نہیں تھا۔
دوسری بات اس میں کوئی شک نہیں کہ کیمپس اور ہاسٹلوں کے اندر منشیات کا کلچر ملک کی باقی تمام یونیورسٹیوں کی طرح عام ہے جسے فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے بارے میں یونیورسٹی انتظامیہ کو نہیں پتہ؟ درحقیقت یونیورسٹی انتظامیہ کو سب پتہ ہے۔ خاموشی کی وجہ شریک جرم ہونا ہے بلکہ اس جرم کا سرغنہ ہونا ہے۔ منشیات کے اس دھندے میں سکیورٹی گارڈز سے لے کر انتظامیہ تک سب کے سب ملوث ہیں۔ دوسرا سوال کیا اس کے بارے میں پولیس کو پہلے کچھ پتہ نہیں تھا؟ جی ہاں، اس جرم میں شراکت دار اور بھی ہیں!اور سب اہم سوال، یہ منشیات کا کلچر اور اسلحہ کلچر کیمپسز میں کب آیا ؟ کیوں آیا؟ درحقیقت طلبہ یونین پر لگنے والی پابندی کے بعد طلبہ سیاست کو بدنام کرنے کیلئے یہاں کے حکمرانوں کی جانب سے اس کلچر کو تعلیمی اداروں میں متعارف کرایا گیا تا کہ طلبہ غیر سیاسی بنایا جائے۔
تیسری بات، انتظامیہ کی مرضی کے بغیر پولیس کیمپس میں اور ہاسٹلوں میں داخل کیسے ہو گئی؟ کیا انتظامیہ کو اس کا کچھ پتہ نہیں تھا؟ اگر واقعی نہیں تھا تو پھر انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ فورا اس تھانے کی پولیس کے خلاف کیس کرے جس کی پولیس کیمپس میں داخل ہوئی تھی کہ بغیر اجازت کیمپس میں گھس کر عام طلبہ کی کھلے عام تذلیل کرنا قانونا جرم ہے۔ یہ تعلیمی ادارہ ہے کسی کا ڈیرہ نہیں کہ جب جس کا منہ کیا اندر گھس کر بدمعاشی شروع کر دے۔ اگر یونیورسٹی انتظامیہ ایسا نہیں کرتی تو پھر یونیورسٹی انتظامیہ کو جواب دینا ہوگا کہ پولیس اندر کیسے گھسی۔
دراصل پچھلے کئی سالوں سے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ہے، انتظامیہ کی کرپشن کی وجہ سے ہاسٹلوں میں انفراسٹکچر تباہ ہو گیا ہے اور اسی طرح طلباء و طالبات کو پروفیسروں اور انتظامیہ کی جانب سے مسلسل حراساں کیے جانے کے خلاف طلبہ میں شدید غصہ موجود ہے اور خاص طور پر بلوچ اور پشتون طلبہ کی الاٹمنٹ کا مسئلہ بھی شدت کرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے انتظامیہ شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اس خوف سے کہ کہیں طلبہ نئے ہاسٹل بنانے کا مطالبہ نہ کردیں اس طرح کے اقدامات کروا رہی ہے۔ جس سے کیمپس میں خوف کی فضا پیدا ہو اور طلبہ بس اسی پر گزارا کریں جو انہیں دیا جا رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں خاص طور پر بلوچ اور پشتون طلبہ کو جان بوجھ کم نمبر دیے جارہے ہیں اور فیل کیا جا رہا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انتظامیہ چاہتی ہے کہ کوٹے پر آنے والے طلبہ کی تعداد کم کی جائے تا کہ فیسوں کی مد میں زیادہ پیسہ بٹورا جا سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ پشتون اور بلوچ طلبہ کی پروفائلنگ پورے ملک میں جاری ہے جسکی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی شہری کی توہین ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ پولیس کی جانب سے اس طرح کے چھاپے انتظامیہ کی مرضی و منشا کیساتھ ہی ہوتے ہیں جن کا مقصد طلبہ میں خوف و حراس پیدا کرنا ہوتا ہے تا کہ وہ غلاموں کی طرح سر جھکائے وہ تمام طلبہ دشمن پالیسیاں برداشت کرتے رہیں جو انتظامیہ ان پر لاگو کرتی ہے۔ جن میں فیسوں میں اضافہ، ہاسٹلوں کے انفراسٹرکچر کی تباہی ، طلبہ کا انتظامیہ اور پروفیسروں کی جانب سے حراساں کیا جانا وغیرہ شامل ہیں۔ہم پولیس کی جانب سے کی جانے والی ا س کاروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور انتظامیہ کو یہ باور کراتے ہیں کہ طلبہ کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا اسکی ذمہ داری ہے جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اب انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ فورا اس پولیس تھانے کے منتظم پر کیس کرے جس نے اس آپریشن کو لیڈ کیا ہے۔ اگر وہ یہ نہیں کر سکتی تو پھر طلبہ کے پاس دوسرا راستہ یہی بچتا ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل کر اپنی عزتکے تحفظ کیلئے احتجاج کا رستہ اپنائیں۔
طلبہ نہیں مانتے، ظلم کے ضابطے!