پاکستان میڈیکل کمیشن اوراین ایل ای‘ شعبۂ طب اور طلبہ کے ساتھ کھلواڑ! احتجاج کے سوا کوئی رستہ نہیں!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

اسلام آباد: ینگ ڈاکٹرز کا پی ایم سی اور این ایل ای کیخلاف احتجاج

صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کی تحلیل اور اس کے نتیجے میں میڈیکل طلبہ پر مسلط کیے گئے نیشنل لائسنسنگ ایگزام (NLE) کے بعد پوری میڈیکل کمیونٹی اور خاص طور پر میڈیکل طلبہ میں بے چینی پھیل گئی ہے اور وہ اس کے خلاف درست طور پر اپنے غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ شہروں میں ڈاکٹرز اور طلبہ کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف احتجاج بھی کیے گئے اور آنے والے دنوں میں مزید احتجاج متوقع ہیں۔ پی ایم ڈی سی کے ملازمین بھی اس فیصلے کیخلاف سراپا احتجاج ہیں جن کاروزگار خطرے میں ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس اقدام کو مکمل طور پر رد کرتا ہے جس کے نتیجے میں نجی میڈیکل کالجز اور ہسپتال مالکان کو کھلی لوٹ مار کی اجازت دے دی گئی ہے جو کہ طبی شعبے کی مکمل بربادی کا باعث بنے گااور یہ سمجھتا ہے کہ میڈیکل طلبہ اورینگ ڈاکٹرز کو متحد ہو کر اس کیخلاف احتجاجی تحریک چلانی ہوگی۔

20 اکتوبر کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کر دیا گیا اور کمشنر اسلام آباد کی قیادت میں پولیس نے پی ایم ڈی سی کے مرکزی دفتر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اتوار کے روز ہونے والی یہ کاروائی کسی ’کو‘ کی منظر کشی کر رہی تھی۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کی تحلیل کے بعد اس کے جگہ لینے کے لیے پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) کی منظوری دی گئی ہے جو کہ ایک کارپوریٹ باڈی ہوگی اور ملک میں طبی شعبے کی نگرانی کی ذمہ دار ہوگی۔ وفاقی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ طب کے شعبے اور طبی تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے یہ اقدام وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اصلاحات اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی تمام تر لفاظی دراصل ایک جھوٹ اور فریب ہے۔ یہ سرکاری اداروں کی ڈی ریگولیشن اور نجکاری کا ہی ایک تسلسل ہے اور اس اقدام کو اسی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت صحت کے شعبے پر اصلاحات کے نام پر نجکاری کا حملہ زور شور سے جاری ہے اور تبدیلی حکومت اصلاحات کے نام پر خیبر پختونخوا اور پنجاب کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے لیے ایک آرڈیننس کے ذریعے ایم ٹی آئی ایکٹ نافذ کر چکی ہے۔ اس کے خلاف دونوں صوبوں کے ڈاکٹر، نرسیں اور پیرامیڈیکس سمیت شعبہ صحت کے تمام ملازمین سراپا احتجاج ہیں اور ایک کامیاب ہڑتال جاری ہے۔ ایسے میں پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرنے کا یہ اقدام اسی نجکاری کے عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کے ذریعے میڈیکل کے شعبے کو سرمایہ داروں کے لیے مکمل طور پر کھول دیا گیا ہے۔

پرائیویٹ کالج مافیا کے لیے ’’لائسنس ٹو کِل‘‘ اور شعبۂ طب کی بربادی

جہاں ایک طرف سرکاری ہسپتالوں کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں تو وہیں پی ایم ڈی سی تحلیل کرکے نجی میڈیکل کالج مالکان کو ”لائسنس ٹو کِل“ جاری کردیا گیا ہے تاکہ وہ دل کھول کر منافعے بٹور سکیں۔ اس سے قبل پی ایم ڈی سی ملک بھر میں طبی شعبے کی نگرانی بالخصوص میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کو ریگولیٹ کرنے کا کام کرتی تھی جس میں نجی میڈیکل کالجز مالکان کو طبی تعلیم کا کاروبار کرنے کے لیے طوحاً و کرحاً کچھ سٹینڈرڈز کی پیروی کرنا پڑتی تھی مگر اب یہ رکاوٹ بھی ہٹا لی گئی ہے۔ پی ایم ڈی سی کے بعد میڈیکل کالجز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے جو میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تشکیل دی گئی ہے اس پر عملاً نجی شعبے کی اجارہ داری قائم ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ان کی سفارشات کے بغیر کسی عام ڈاکٹر کو تو کونسل کا حصہ نہیں بنایا جائے اور وہاں بیٹھے ڈاکٹروں سے لے کر سول سوسائٹی کے ممبران، انہیں کے مفادات کی حفاظت کریں گے۔ سب سے پہلے تو نجی میڈیکل کالجز طلبہ سے من مانی فیسیں بٹورنے کے لیے آزاد ہیں اور اس میں انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کا نشانہ بھی درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ان سفید پوش گھرنوں کے طلبہ بنیں گے جن کے والدین جیسے تیسے یہ فیسیں پوری کر رہے تھے۔ ان کی بھی ایک بھاری اکثریت کے لیے ان کالجز کے دروازے بند ہوجائیں گے۔

میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے مگر اب ان سرمایہ داروں، سیٹھوں، زمینداروں اور وڈیروں کے بچوں کے لیے کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلہ لینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ گوکہ میڈیکل کالجزمیں داخلوں کے لیے پہلے کی طرح انٹری ٹیسٹ تو لیا جائے گا مگر پرائیویٹ میڈیکل کالجز فائنل میرٹ میں انٹری ٹیسٹ کے نمبروں کی شرح اپنی مرضی سے طے کرنے میں آزاد ہوں گے یعنی چاہے وہ 10فیصد نمبر شامل کریں یا 50فیصد وہ اس میں آزاد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نجی میڈیکل کالجز ملحقہ یونیورسٹی سے ’اجازت‘ کے بعد اپنا داخلہ ٹیسٹ لینے میں بھی آزاد ہوں گے۔ یعنی ’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘۔ اب ظاہری سی بات ہے کہ نجی کالجز مالکان کو پیسوں سے غرض ہے اور معیاری طبی تعلیم سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ جو پیسے دے سکتا ہے اس کے لیے کسی بھی نجی میڈیکل کالج کے دروازے کھلے ہیں۔ مزید برآں، ان نجی میڈیکل کالجز کو ملحقہ یونیورسٹیاں ہی ریگولیٹ کریں گی۔ یہ تمام یونیورسٹیاں الحاق شدہ کالجز سے فنڈز لیتی ہیں اور ظاہری سی بات ہے جس کا پیسہ ہو پالیسیاں بھی اسی کے حق میں بنتی ہیں۔

اس سے قبل ان نجی میڈیکل کالج مالکان کو طبی تعلیم کا کاروبار کرنے کے لیے فزیکل انفرا سٹرکچر جیسے ٹیچنگ ہسپتال کا معیار و شعبے، عمارت، لیبارٹریاں وغیرہ اور فیکلٹی کی کم ازکم شرائط کو پورا کرنا لازمی ہوتا تھا کہ گوکہ پی ایم ڈی سی میں بیٹھے ان کے خیر خواہ ان پر خاص نظر کرم رکھتے تھے مگر اب یہ پردہ بھی ہٹا دیا گیا ہے اور اب یونیورسٹیاں ہی ان تمام معاملات کو ریگولیٹ کریں گی اور متعلقہ یونیورسٹی ہی یہ طے کرے گی کہ کس کالج میں فیکلٹی کی تعداد کتنی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سے قبل فیکلٹی کی تعلیم قابلیت اور تجربے کے لحاظ سے تنخواہوں اور مراعات کا پیکج پی ایم ڈی سی کی جانب سے طے کیا گیا تھا اور ہر کالج متعلقہ فیکلٹی کو اتنی تنخواہ دینے کا پابند تھا۔ اب ان نجی میڈیکل کالجز کے اساتذہ کے سر پر بھی تلوار لٹک رہی ہے کہ جہاں ایک طرف ڈاؤن سائزنگ کی جائے گی تو دوسری طرف بچ جانے والی فیکلٹی کو کم سے کم تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔

یہ طب کے شعبے اور طلبہ کے ساتھ کسی کھلواڑ سے کم نہیں اور اس سب کا نتیجہ ملک بھر میں طب کے شعبے کی بربادی کی صورت میں نکلے گا۔ ایک طرف ہر گلی کونے میں نجی میڈیکل کالج کھل جائیں گے تو دوسری جانب طبی شعبے کا معیار گرتا جائے گا جو کہ درحقیقت عطائیت کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔
ایک امر جس پر کسی بھی جانب سے بات نہیں کی جارہی وہ یہ ہے کہ طب کے شعبے کی ڈی ریگولیشن کا عمل بس یہیں تک نہیں رکے گا بلکہ سرکاری میڈیکل کالجز اور ان میں پڑھنے والے طلبہ بھی اس کی زد میں آئیں گے۔ اس وقت پاکستان بھر کے سرکاری میڈیکل کالجز کی فیسیں نجی میڈیکل کالجز کے مقابلے میں کہیں کم ہیں۔ مالی سال 2019-20کے بجٹ میں ملک میں اعلیٰ تعلیم کو ’فروغ‘ دینے کی خاطر تبدیلی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں بڑی کمی کردی گئی جس کے بعد سرکاری یونیورسٹیز کو کہا گیا کہ وہ مالی معاملات کے لیے حکومت کی جانب مت دیکھیں بلکہ اپنے اخراجات خود اٹھائیں۔ اس کے بعد جہاں ملک بھی کی سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا وہیں کئی سکالرشپس اور مالی امداد کو بند کردیا گیا ہے۔ مستقبل قریب میں سرکاری میڈیکل کالجز بھی اس حملے کی زد میں آئیں گے۔

این ایل ای؛ امتحان پر امتحان کا گھن چکر

جہاں اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نجی شعبے کو نوازا گیا ہے تو دوسری جانب میڈیکل طلبہ کے سروں پر ایک اور امتحان مسلط کردیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد مارچ 2020ء کے بعد گریجوایٹ ہونے والے طلبہ کو ہاؤس جاب سے قبل نیشنل لائسنسنگ ایگزام (NLE) دینا لازمی ہوگا۔ اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد ہی وہ میڈیکل گریجوایٹس ہاؤس جاب کے لیے اہل ہوں گے جس کی تکمیل کے بعد ان کو فل لائسنس جاری کیا جائے گا۔ تمام میڈیکل سٹوڈنٹس اس فیصلے کے خلاف شدید غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ دراصل حکومت اپنی ناہلی کا سارا بوجھ ان طلبہ پر ڈال رہی ہے بجائے یہ کہ طب کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے میڈیکل کے شعبے کا بجٹ بڑھایا جائے، نئے میڈیکل کالجز تعمیر کیے جائیں، طبی تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نصاب اور انفراسٹرکچر تعمیر کیا جائے، طلبہ کی تعداد کے تناسب سے نئی فیکلٹی اور سٹاف بھرتی کیا جائے، لیبارٹریز کے معیار کو بہتر کیا جائے، حکومت امتحان پر امتحان لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ میڑک سے لے کر میڈیکل کالج میں داخلے کے امتحان تک طلبہ کو ایک دوڑ میں بھاگنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے بعد اب ان کے ایک اور امتحان دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پہلے ہی سماجی و معاشی دباؤ کے باعث میڈیکل اسٹوڈنٹس میں خودکشیوں کا رجحان سب سے زیادہ ہے ایسے میں این۔ایل۔ای ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا۔ یہ امتحان صرف سال میں دو بار منعقد ہوگا اور فیل ہونے کی صورت میں کئی ماہ بیروزگار بیٹھ کر ٹیسٹ کے دوبارہ منعقد ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔

یہاں ایک امر کی وضاحت لازمی ہے کہ غالب امکان ہے کہ این۔ایل۔ای کے انعقاد کی ذمہ داری نجی ٹیسٹنگ سروسز جیسے این ٹی ایس وغیرہ کے سپرد کردی جائے گی جن کی لوٹ مار اور فراڈ کی کئی داستانیں رقم ہیں، جس کے نتیجے میں پیسے لگا کر اس مرحلے کو بھی پار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے کہ لاکھوں روپے کی رشوت ہر کوئی تو نہیں دے سکتا تو جس کے پاس پیسے ہوں گے اس کے لیے یہ این ایل ای پاس کرنا بھی بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔

این۔ایل۔ای اور پی ایم سی کے خلاف کیسے لڑا جائے؟

این ایل ای اور طب کے شعبے میں پرائیویٹ میڈیکل مافیا کی لوٹ مار کے خلاف بند باندھا جا سکتا ہے۔ یہ ہرگز ناممکن نہیں مگر اس کا انحصار میڈیکل اسٹوڈنٹس پرہے مگر اس کے لیے ایک سنجیدہ لڑائی لڑنی پڑے گی۔ مگر یہ لڑائی حکومت سے اپیلیں کرنے یا عدالتوں میں رٹ بازی کے ذریعے ہرگز نہیں جیتی جاسکتی بلکہ الٹا اس عدالتی رٹ بازی سے طلبہ کونقصان پہنچے گا۔ ان عدالتوں کی حقیقت سے آج پاکستان کا ہر ذی شعور فرد بخوبی سمجھتا ہے۔ یہ عدالتیں طاقتور اور امیروں کی رکھیلیں ہیں جہاں سے انصاف پیسوں کے ذریعے خریدنا پڑتا ہے۔ ان عدالتوں سے کسی کو انصاف کی کیا توقع ہوگی جہاں سے سانحہ ساہیوال کے مجرم باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ یہ لڑائی طلبہ کو اپنے زور بازو پر لڑنی ہوگی اور پہلا قدم منظم ہونے کا ہے۔ ہر کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر احتجاجی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو کہ تمام طلبہ میں آگاہی مہم چلائیں اور پہلے مرحلے پر اپنے اپنے کالجز میں احتجاج کیے جائیں جس کے بعد ان کا دائرہ شہروں کی سطح تک پھیلایا جائے۔ اس کے بعد ان احتجاجی کمیٹیوں کو آپس میں جوڑتے ہوئے ملک گیر احتجاجوں کی کال دی جائے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشنز کی بھی یہ ذمہداری بنتی ہے کہ جہاں وہ شعبۂ طب کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ کے خلاف آواز بلند کریں اور ساتھ ہی ساتھ میڈیکل طلبہ کو بھی منظم کرنے میں اپنا کردار اداکریں۔

یاد رکھیں! طب کے شعبے کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ کے خلاف اصل لڑائی سڑکوں اور چوراہوں پر لڑنی ہوگی۔

پروگریسو یوتھ الائنس این ایل ای اور نجی شعبے کی اس لوٹ مار کو مکمل رد کرتا ہے اور اس لڑائی میں ہر شہر میں میڈیکل کے طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا اور اس لڑائی کو منظم کرنے میں ان کی ہرممکن مدد کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.