برطانیہ: کوربن کی کامیابی، سہرا نوجوانوں کے سر!

|تحریر: جوء اٹارڈ، مارکسسٹ سٹوڈنٹس فیڈریشن، ترجمہ: ولید خان|

پورے ملک سے جب حتمی نتائج ٹی وی پر آنا شروع ہو ئے تو سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی زبان پر ایک ہی لڑکھڑاتا جملہ تھاکہ’’یہ ناممکن ہے۔‘‘ رات گئے تک نتیجہ واضح ہو چکا تھا: ایک ’’ناقابل منتخب‘‘ سوشلسٹ نے پارلیمنٹ میں تھریسا مے کے بھاری اکثریت کے خواب کو چکنا چور کر دیا تھا۔ غلط کیا ہوا؟ ٹوری کس طرح سے ایک ’’ناقابل شکست‘‘ مہم ہار گئے؟

To read this article in English, click here

مے نے جب قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تو اس وقت اسے رائے شماریوں میں بھاری برتری حاصل تھی لیکن اس کی پر فریب اور ہر وعدے سے انحراف بھری مہم، لیبر کے مثبت پیغامات سے بھرپور مینی فیسٹو پر مبنی مہم کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ پھر بھی پولنگ کے دن تک امکانات یہی تھے کہ ٹوری بھاری اکثریت کے ساتھ فاتح ہوں گے۔ ایک دو رائے شماریوں(YouGovاورSurvation) میں دونوں پارٹیوں کے درمیان تین فیصد یا اس سے کم کے فرق کو،جس کا مطلب یہ تھا کہ تھریسا مے کو اکثریت نہیں مل پائے گی، نظر انداز کر دیا گیا کیونکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ عمومی طور پر ووٹ نہ ڈالنے والوں (خاص طور پر نوجوانوں) کو بہت بڑی تعداد میں متحرک ہو کر ووٹ ڈالنا پڑے گا۔ لیکن حتمی ووٹ بینک شیئر (ٹوری 42.4فیصد ، لیبر 40.0فیصد) سے متعلق ان کی پیش گوئی تقریباً درست ثابت ہوئی اور لیبر نے ٹوری ووٹوں کو کاٹ کر اپنا حصہ بڑھایا۔ اس حیران کن نتیجے کی وجہ بہت سارے عناصر تھے جن میں UKIP سے واپس آنے والے سابق ناراض لیبر ووٹر اور شہروں سے ٹھوس حمایت بھی شامل تھی۔ تاہم لیبر کی کامیابیوں کا سہرا نوجوانوں کی بھاری اکثریت کی حمایت کے سر جاتا ہے۔

نوجوانوں نے پچھلے دو موقعوں پر کوربن کی حمایت کی جب انہوں نے 2015ء اور 2016ء میں لیبر کی قیادت کیلئے ہونے والے انتخابات میں ’’اعتدال پسندوں‘‘ کے خلاف شاندار فتح دلا کر مخالفین کو کچل کر رکھ دیا۔ ان قبل از وقت انتخابات میں بھی یہ جوش و جذبہ قابل دید تھا جب یونیورسٹیوں والے حلقوں میں پولنگ سٹیشنوں کے باہر نوجوان طویل قطاروں میں ووٹ ڈالنے کیلئے کھڑے تھے۔ 18-25 سال کی عمر کے نوجوانوں کی ووٹنگ کی شرح 72فیصد تھی جو کہ پچھلے چار انتخابات میں 40فیصد کی عمومی شرح کی نسبت ایک غیر معمولی اضافہ ہے۔ اس 72فیصد میں سے 67فیصد حمایت لیبر کے حق میں گئی جس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

انتخابی مہم کے دوران طلبہ اور نوجوانوں کے بڑے بڑے ہجوم کوربن کی تقریریں سننے پہنچتے تھے، وہ’’1970ء کی دہائی کے سیاسی کھنڈر‘‘ کی ایک سادہ سی جھلک دیکھنے کے لئے پرجوش تھے۔ ان ریلیوں سے مستقبل کے سرگرم کارکنوں کو بے پناہ جذبہ فراہم کیا اور یہ ریلیاں براہ راست لاکھوں لوگ اپنی سکرینوں پر دیکھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ حیران کن وہ خیر سگالی تھی جو کوربن کو نوجوان ثقافتی حلقوں سے ملی۔ ایک طرف ٹائمز، ٹیلی گراف اور یہاں تک کہ گارڈین اخبارات لیبر لیڈر کے خلاف آخری وقت تک زہر اگل رہے تھے جبکہ نوجوانوں کے میگزین جیسے NME اور Kerrang نے کھلم کھلا کوربن کی حمایت کی اور پھر کسی کے وہم و گمان میں بھی ’’Grime for Corbyn‘‘ مہم موجود نہیں تھی (گرائم برطانیہ میں موسیقی کی ایک طرز ہے جس کی بنیادیں محنت کش طبقے کی ثقافت میں ہیں ۔ یہ طرز نوجوانوں میں بہت مقبول ہے اور اس طرز کے تقریباً تمام بڑے موسیقاروں اور گائیکوں نے کوربن کی پرجوش حمایت کی)۔

برنی سینڈرز، جان لوک میلنشاں اور حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ارد گرد بننے والے عوامی تحرک کی طرح برطانیہ میں سوشل میڈیا پر ٹوریوں سے زیادہ لیبر پارٹی کے حوالے سے ایک تحرک دیکھنے میں آیا، جس میں ٹوئیٹر اور فیس بک دائیں بازو کی پریس اور ٹی وی کے جھوٹ اور دھوکوں کے خلاف متبادل خبروں کی ترسیل کا ذریعہ بن کر سامنے آئے۔ اس سوشل میڈیا تحرک کو سیاسی مبصرین نے نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’بند کمروں کی آوازیں‘‘ ہیں جو ووٹوں میں اپنا اظہار نہیں کریں گی۔

انتخابی نتیجے نے اس طنزیہ سوچ کو غلط ثابت کیا ہے کہ نوجوانوں کی ووٹنگ کے دن ووٹ ڈالنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمیں اگر کچھ ایسا ملے جس پر ہمارا اعتماد اور یقین ہو تو ہم بڑی تعداد میں اس کیلئے باہر نکلیں گے۔ برطانیہ کے نوجوانوں کا لیبر سے متعلق یہی تجربہ رہا ہے کہ ان کی حکومت ٹوریوں کی دم چھلا ہی ہوتی ہے۔ سیاسی عمل کی طرف ہماری بے اعتنائی اس بات کا اظہار ہے کہ بے لگام سرمایہ داری کا کوئی فعال متبادل موجود نہیں تھا،لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

انتخابات سے پہلے ایک گمنام ٹوری ممبر پارلیمنٹ نے ہفنگٹن پوسٹ کو کہا کہ ،’’30 سے کم عمر کے نوجوان کوربن سے پیار کرتے ہیں لیکن وہ اتنا بھی خیال نہیں کرتے کہ وہ اپنے سست پچھواڑوں سے اٹھ کر اس کیلئے ووٹ دیں!‘‘ نوجوان نہ صرف اپنے ’’سست پچھواڑوں‘‘ سے اٹھے بلکہ انہوں نے 12 ٹوری پچھواڑوں پر لات مار کر انہیں پارلیمنٹ سے باہر کر دیا جس میں کینٹر بری کی ٹوری کے زیر قبضہ سو سال پرانی سیٹ بھی شامل تھی۔

جو یہ الزامات لگاتے ہیں کہ نوجوان کوربن کی ’’شخصیت پرستی‘‘ کے سحر کا شکار ہو رہے ہیں اس بات کو ماننے سے عاری ہیں کہ کوربن شاویز کی طرح کوئی بہت زیادہ پرجوش یا سحر کن شخصیت نہیں ہے۔ لیکن اس کا اصولی سوشلسٹ پلیٹ فارم (خاص طور پر ٹیوشن فیس اور استحصالی کنٹریکٹ ختم کرنے کے وعدے) ایک ایسی نسل کیلئے پرجوش اظہار کا نکتہ بن گیا جو بیروزگاری اور قرضے کے بوجھ تلے پستی جا رہی ہے۔

جہاں تک بلئیرائٹس کا تعلق ہے: جیک سٹرا، چوکا اومونا اور مارگریٹ بیکیٹ کو قومی ٹی وی چینلوں پر بے پناہ ہزیمت اٹھانی پڑی جب ان کے ناقابل منتخب لیڈر نے 1997ء کے بعد پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں لیبر سیٹوں کو بڑھایا اور کلیمنٹ ایٹلی کے بعد سب سے بڑا ووٹ بینک کا حصہ بنا لیا۔ مستقبل قریب میں کوربن کو پارٹی لیڈر شپ سے فارغ کرانے کی ساری امیدیں فی الحال چکنا چور ہو چکی ہیں لیکن لیبر میں خانہ جنگی اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک بائیاں بازو پارٹی مشینری پر اپنی گرفت مضبوط نہیں کر لیتا۔

ہزاروں اور لاکھوں ریڈیکلائز نوجوانوں کو ان نتائج سے بے حد حوصلہ ملا ہے، یہ اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی لیبر برانچوں اور CLPs میں فعال اور متحرک ہوں تاکہ لیبر کی اس دیو ہیکل فتح کو قومی بنیادوں پر پارٹی کے اندر بائیں بازو کی پیش قدمی میں تبدیل کیا جائے۔ ہمارا موقف درست ثابت ہو چکا ہے: سوشلسٹ نظریات نہ صرف قابل انتخاب ہیں بلکہ لیبر کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہیں۔ ہمیں کوربن کی جیت کی بنیاد پر نئی عمارت تعمیر کرنا ہو گی۔

ٹوری اس وقت انتہائی کمزور پوزیشن میں ہیں۔ DUP کی حمایت کے ساتھ بھی ٹوریوں کی اکثریت سکڑ چکی ہے، انہیں اندرونی خانہ جنگی کا سامنا ہے اور زیادہ امکانات یہی ہیں کہ سر پر کھڑے بریگزٹ مذاکرات انتہائی پر انتشار ہوں گے۔ اس بات کے بے تحاشا امکانات ہیں کہ یہ اقلیتی حکومت زیادہ عرصہ نہ چل سکے۔ اگر جلد ہی کوئی نیا الیکشن ہوتا ہے تو ایک متحد سوشلسٹ پارٹی اس کام کو پورا کر سکتی ہے جس کا ہم نے آغاز کیا ہے اور اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ اگر ایسا کرنا ہے تو پھر نوجوانوں کو اپنی تعداد کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے وہ بنیادیں بنانی پڑیں گی کہ حتمی فتح ہماری ہو۔

نوجوانوں نے اپنے آپ پر شک کرنے والوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور ٹوریوں کو انہوں نے ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں۔ لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ انتخابات ہماری بغاوت کا اصل آغاز ہیں جو صرف اسی وقت ختم ہو گی جب اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.