|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملاکنڈ|
پروگریسو یوتھ الائنس ملاکنڈ کی جانب سے چکدرہ پریس کلب میں، مفت تعلیم اور طلبہ یونین بحالی کے حوالے سے یوتھ کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ کنونشن میں ملاکنڈ یونیورسٹی، درگئی ڈگری کالج، پشاور یونیورسٹی، فارسٹ کالج پشاور، عبد الولی خان یونیورسٹی اور دوسرے کالجوں سے طلبہ نے شرکت کی۔ سٹیج سیکٹری کے فرائض اسفندیار شنواری نے سر انجام دیے۔ فرہاد علی نے پروگریسو یوتھ الائنس کا تعارف پیش کیا اور کہا کہ پروگریسو یوتھ الائنس ایک ترقی پسند طلبہ تنظیم ہے جو کہ ملک بھر کے طلبہ اور نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے اور مفت تعلیم، طلبہ یونین کی بحالی اور بے روزگاری کے خاتمے کیلے جدوجہد کا علم بلند کئے ہوئے ہے۔
اس کے بعد تیمور خان، عارف اللہ، صدیق جان اور راشد خالد نے تقاریر کیں۔ جس میں انہوں نے طلبہ سیاست کی تاریخ، طلبہ یونین کی اہمیت و ضرورت، طلبہ کے مسائل اور ان کا حل کے حوالے سے روشنی ڈالی۔ مقررین نے کہا کہ اس وقت تعلیم کیلئے بجٹ میں انتہائی کم رقم مختص کئی گئی ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری طرف طلبہ کو بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں، جس میں ٹرانسپورٹ، میس، جنریٹر، ہاسٹلوں میں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور دوسرے مسائل شامل ہیں۔ اسی طرح مہنگائی میں روزانہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کا پھر اثر طلبہ اور تعلیم کے حصول پر پڑتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا اب ایک خواب بن چکا ہے۔ ہر سال فیسوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں بعض تعلیمی اداروں کی فیسوں میں 400 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ جو ایک عام انسان کے بس سے باہر ہے۔ فیسوں کی ادائیگی نہ کر سکنے کی وجہ سے یا تو طلبہ درمیان میں ہی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں یا خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جس کی ایک مثال عبدالولی خان یونیورسٹی میں حذیفہ نامی طالبعلم ہے۔ جس نے دو سمسٹر کی فیس ادا نہیں کی تھی اور اس کو یونیورسٹی سے نکالنے کی وجہ سے اس نے خود کشی کر لی۔
مقررین نے کہا کہ تمام طلبہ نہ تو اجتماعی خودکشی کر سکتے ہیں اور نہ ہی تمام طلبہ تعلیم چھوڑ سکتے ہیں۔ بلکہ مفت تعلیم ہر شہری کا حق ہے۔ اس حق کیلئے طلبہ کو خود جدوجہد کرنی ہوگی اور یہ حق چھیننا ہوگا۔ اسی طرح طلبہ یونین کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ماضی میں تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ یونین موجود ہوتی تھی جس کے ہر سال انتخابات ہوتے تھے اور جو یونین طلبہ کے حقیقی مسائل کے حوالے سے بات کرتی تھی، طلبہ اس کو منتخب کرتے تھے۔ طلبہ کے منتخب شدہ نمائندے یونیورسٹی کے تمام تر انتظامی معاملات میں شامل ہوتے تھے اور کوئی بھی فیصلہ انکی رائے کی شمولیت اور اتفاق کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ لیکن طلبہ یونین پر پابندی کے بعد غنڈہ گرد طلبہ تنظیموں کو ریاستی پشت پناہی میں تعلیمی اداروں پر مسلط کیا گیا۔ جن کا کام طلبہ سیاست کی آڑ میں غنڈہ گردی، بھتہ خوری، ہاسٹل کے کمروں پر قبضہ اور ان کو اپنی مرضی سے بھاری رقم پر طلبہ کو دینا اور طلبہ کی حقیقی تحریکوں کو انتظامیہ کی پشت پناہی سے زائل کرنا اور ان کو اپنے مفادات کیلے استعمال کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ کی بھاری اکثریت طلبہ سیاست سے متنفر ہو چکی ہے۔
مقررین نے کہا کہ اب وقت آچکا ہے کہ تمام طلبہ اپنے حقوق کی جدوجہد کیلئے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوں، جو طلبہ کی حقیقی نمائندگی کرتا ہو اور وہ پلیٹ فارم پروگریسو یوتھ الائنس فراہم کرتی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس وقت پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کے اندر موجود ہے اور طلبہ حقوق کی تمام لڑائیوں میں طلبہ کی اگلی صفوں میں موجود ہے۔
اس کے بعد سکندر نے پروگریسو یوتھ الائنس کے مطالبات پیش کئے جن کو حال میں موجود تمام طلبہ نے منظور کر لیا۔ آخر میں پروگریسو یوتھ الائنس کی ملاکنڈ ڈویژن کی سطح پر ایک آرگنائزنگ کمیٹی بنائی گئی جو کہ پورے ڈویژن کی سطح پر طلبہ کو متحد کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے کام کو آگے بڑھائینگے۔ اس کمیٹی میں بونیر سے عمران اور سر فروش، درگئ سے سکندر اور لیونے خٹک، سخاکوٹ سے فرہاد، دیر سے عارف اللہ اور ملاکنڈ سے تیمور خان شامل ہیں۔