|رپورٹ: محمد ابنِ ثناء|
’’یورپ کے اوپر ایک بھوت منڈلا رہا ہے۔ کمیونزم کا بھوت۔ اس بھوت کو اتارنے کیلئے پرانے یورپ کی تمام طاقتوں نے اتحاد کرلیا ہے‘‘۔
کمیونسٹ مینی فیسٹوکے یہ جملے آج بھی اسی طر ح سماج پر صادق آتے ہیں جیسے آج سے 170 سال پہلے۔ انسانی تاریخ کے گزشتہ تمام معاشی نظام یا طبع پیداوار جب پیداواری قوتوں کو ترقی دینے سے قاصر ہوگئے تو عوامی بغاوتوں کے نتیجے میں نئے سماجوں کی بنیاد رکھی گئی مگر یہ کوئی شعوری جدوجہد نہ تھی۔ جبکہ سرمایہ داری کو ایک طبقہ شعوری طور پر قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے حق میں مسلسل پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اس غیر انسانی نظام کو بدلنے کیلئے عالمی طورپر تمام محنت کشوں کو شعوری عملی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی سلسلے میں 9 ستمبر کو گوجرانوالہ میں پروگریسو یوتھ الائنس کے زیرِ اہتمام ’نوجوان اور ہمارا مستقبل‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد کیا گیاجس میں مختلف سکول و کالج کے اساتذہ، طلبہ اور PHA ایمپلائز یونین کی نوجوان قیادت نے شرکت کی۔ پروگرام کو چئیر کرتے ہوئے اویس نے سب سے پہلے سلیم ہارون کو نظم پیش کرنے کی دعوت دی۔
موضوع پر بات کرتے ہوئے محمد ابنِ ثناء نے نوجوانوں کے تعلیم اور روزگار کے مسائل کو سامنے رکھا اور پاکستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے مسائل اور ان کی حقیقی وجوہات پر بحث کی۔ محمد کا کہنا تھا کہ اس نظام کے آقاؤں کے دلاسے اور وعدے ایک سراب سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ نظام تمام وسائل کی بہتات کے باوجود انسانوں کی اکثریت کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ آج ساری دنیا کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو عالمی سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کا خاتمہ کرنے کیلئے یکجا ہونا ہوگا تاکہ سرمایے اور سرمایہ دار کی غلامی سے نوع انسانی کو نجات مل سکے۔
اس کے بعد مشعل وائیں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تعلیم اور صحت کے شعبوں کی زبوں حالی پر بات کی اورتعلیمی اداروں میں طلبہ پر کیے جانے والے جبر پر تنقید کی۔ ایک طرف تو فیسوں کا بڑھنا انکے پہلے سے موجود مسائل پر عذاب بن کر ٹوٹتا ہے دوسری طرف طلبہ یونین پر ’تعلیمی ماحول میں بگاڑ‘ کے نام پر پابندی لگائی گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکمران شروع سے ہی عوام کو اپنی طاقت کا احساس ہونے سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے جواز کو تقویت دینے کیلئے اسلامی جمعیت طلبہ جیسی د ہشت گرد تنظیمیں تعلیمی اداروں پر مسلط کی ہوئی ہیں جو حکمرانوں کے سنگین عزائم کا اظہار ہے۔ سلمٰی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تعلیمی شعبے کی لوٹ کھسوٹ کو حقائق کی روشنی میں بے نقاب کیا۔
سلمیٰ کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم بی ۔ایس پروگرام کو مکمل طور پر رائج کر رہا ہے۔ اس کے پیچھے مقاصد یہ نہیں کہ تعلیم کو فروغ دیا جائے کیونکہ نصاب تو وہی پڑھایا جائے گا جو ایسی سوچ کے لوگ پیدا کرے جو حکمران طبقے کے مفاد میں ہو،بلکہ اس کا سب سے ہولناک پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی طالب علم تین سال پڑھنے کے بعد بھی کسی سمیسٹر میں فیل ہوجاتا ہے تو اس کے پچھلے سالوں کی محنت اور فیسیں ضائع جائیں گی۔ ہمیں ایک ایسے نظام کی طرف بڑھنا ہوگا جس میں تعلیم کاروبار کی بجائے بنیادی انسانی ضرورت کے تحت مفت دی جائے۔ اویس نے پروگرام کا اس بات پر اختتام کیا کہ آج دنیا میں ہر جگہ سرمایہ داری نظام ہی کی مختلف گھٹیا شکلیں موجود ہیں۔ موجودہ عہد کی نوجوان نسل کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اس نظام کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کریں جس میں ظلم و استحصال کی ہر شکل کا خاتمہ ممکن ہو۔