پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد اور این جی اوز کا دھندا

|تحریر: فضیل اصغر|

اگرچہ پوری دنیا میں خواتین پر سماجی جبر موجود ہے مگر پاکستان جیسے سابقہ نو آبادیاتی ملک میں باقاعدہ عوام دشمن ریاستی پالیسی کے تحت مذہبی بنیاد پرستی اور رجعتی ثقافت تخلیق کی گئی ہے جس کی سرپرستی سامراجی طاقتیں کرتی ہیں۔ امیر اور غریب کے طبقاتی تضاد کی بنیاد پر کھڑے اس سرمایہ دارانہ سماج میں ایسی بیہودہ اخلاقیات پروان چڑھی ہیں جس سے ہر ذی شعور انسان کو گھن آتی ہے اور خواتین کے حقوق کی بات کرنا ویسے ہی جرم بن چکا ہے۔ مملکت خداداد میں گھر، سکول، کالج، یونیورسٹی، میڈیا الغرض ہر جگہ بچپن سے لے کر جوانی تک موجودہ اور اس سے پچھلے والی نسلوں کو یہ درس دیا گیا ہے کہ عورت مکمل انسان نہیں ہے اسی لیے اس کے حقوق بھی ”مکمل انسانوں‘‘والے نہیں ہیں۔ اس درس پر مبنی سماجی اقدار کا اظہار ہمیں آدھی گواہی سے لے کر اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت نہ ہونے اور مخصوص لباس پہننے کی پابندی سے لے کر مردوں کی نسبت کم تنخواہیں دیے جانے تک میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف ایک گھناؤنا فراڈ کر کے اسی عورت کو نام نہاد قابل احترام اور مرد کی ”غیرت“ اور ”عزت“کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ نام نہاد عزت اور غیرت بد ترین جبر اور مظالم کا شکار ہے۔ اس سے بنیادی انسانی حقوق بھی چھین لیے گئے ہیں اور اسے نجی ملکیت میں موجود ایک شے یا جنس کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

مملکت خداداد میں سماج کے ہر شعبے میں صنفی جبر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں انتظامیہ اور پروفیسروں کی جانب سے طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سے لے کر فیکٹریوں اور دیگر جگہوں پر کام کرنے والی خواتین محنت کشوں کو ہراساں کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا اور مرد محنت کشوں کی نسبت کم تنخواہیں دینا معمول ہے۔ روزانہ کروڑوں خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں، امیرزادوں کے گھروں میں کام والی خواتین اور چھوٹی بچیاں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جبکہ وحشیانہ تیزاب گردی اور چھوٹی بچیوں کا ریپ اس معاشرے کی پہچان بن چکے ہیں۔ ونی، وٹہ سٹہ اور کاروکاری جیسی فرسودہ روایات خواتین اور بچیوں کو اذیت ناک ذہنی اور جسمانی جبر میں کچل رہی ہیں۔ ورلڈ اکنامک فارم کی ایک رپورٹ کے مطابق مردوں اور خواتین کے مابین فرق کے حوالے سے پاکستان 156 ممالک میں 153ویں نمبر پر ہے۔

بہر حال جبر جب حد سے بڑھ جائے تو اس کے خلاف بغاوت کا جنم لینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، لا علاجی، بے گھری کے ساتھ مل کر صنفی جبر خواتین میں شدید غم و غصہ پیدا کر رہا ہے اور اب اس کا اظہار بھی ہونا شروع ہو گیا ہے۔ گوادر میں ہزاروں خواتین کے عظیم الشان احتجاج سے لے کر مختلف تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کے خلاف ہونے والے احتجاج اس دیوہیکل بغاوت کی ایک معمولی سی جھلک ہے جو مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی ہے۔

اس ماحول میں عالمی سامراجی ممالک کے مفادات کے زیر سایہ چلنے والے اداروں جیسے اقوام متحدہ کے زیر اثر کام کرنے والی این جی اوز پاکستان جیسے ممالک میں ریاستی نا اہلی اور فرعونیت کی وجہ سے موجود بے شمار حل طلب مسائل کو حل کرنے کے نام پر خوب مال بناتی ہیں، خواتین پر ہونے والے جبر کا بھی خوب کاروبار کرتی ہیں اور اس سنگین مسئلے پر انتہائی بے دردری کے ساتھ مال بناتی ہیں۔ بظاہر یہ اپنے آپ کو انسان دوست اور مسائل کا حل نکالنے والی قوت کے طور پر پیش کرتی ہیں مگر درحقیقت ان کا کام نا صرف ان مسائل کے نام پر مال کمانا ہوتا ہے بلکہ ”قانونی چارہ جوئی“ کے نام پر محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں کے اتحاد کو ایک دوسرے سے توڑنا اور تمام مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کش طبقے کی قیادت میں ایک بڑی عوامی بغاوت کو روکنا بھی ہوتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں لبرل اور فیمنسٹ خواتین و حضرات کی جانب سے خواتین پر جبر کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں جنہیں میڈیا پر بھی خوب تشہیر ملی۔ یہ تمام لوگ کسی نا کسی این جی او سے تعلق رکھتے ہیں جن کا مقصد پدرشاہی کا خاتمہ کرنا نہیں بلکہ مال بنانا ہے۔ ریاست کی جانب سے بھی ان این جی اوز کو مدد حاصل ہے کیونکہ پاکستان کے حکمران بھی یہ جانتے ہیں کہ اگر طلبہ، مزدور اور کسان (جن میں بہت بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے) متحد ہو گئے تو پھر وہ نا صرف صنفی جبر کے خاتمے کیلئے لڑاکا راہ اختیار کریں گے بلکہ ناقابل برداشت مہنگائی، بے روزگاری، لا علاجی، بے گھری اور ان کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جانب بھی بڑھیں گے۔ لہٰذا ایک طرف مذہب کے نام پر ملاؤں کو استعمال کرتے ہوئے وحشیانہ صنفی جبر کو جائز قرار دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب ان این جی اوز کے ذریعے اس جبر کے خلاف جنم لینے والی بغاوت کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ان این جی اوز کی جانب سے فیمنزم کے نام پر یہ واردات ڈالی جاتی ہے۔ بہر حال یہاں فیمنزم پر کچھ با ت کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ حکمران طبقے کی جانب سے خاص طور پر تعلیمی اداروں میں اس کا بہت زیادہ پرچار کروایا جا رہا ہے اور بالخصوص نوجوانوں اور طلبہ میں اسے صنفی جبر کے خاتمے کا واحد ہتھیار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ فیمنزم کے مطابق صنفی جبر کی بنیاد پدرشاہانہ سوچ میں ہے یعنی مرد و خواتین کی سوچ تبدیل کرنی ہوگی جس کیلئے ہر فرد کی سوچ کو الگ سے سمجھنا پڑے گا۔ مگر کروڑوں انسانوں کی الگ تھلگ سوچ کو کیسے سمجھا اور پھر بدلا جا سکتا ہے؟ یہ ناممکن ہے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کوئی بھی سوچ انسان کے ذہن میں آتی کہاں سے ہے؟ ظاہر ہے انسان کی سوچ (خیالات) انسانی دماغ میں ہی ابھرتی ہے لیکن یہ ارد گرد کی دنیا کے ساتھ تعلق میں ہی بنتی ہے۔ لہٰذا سوچ کو سمجھنے کا سائنسی طریقہ کار یہ ہوگا کہ اسے اردگرد کی دنیا کے ساتھ تعلق میں ہی سمجھا جائے۔ جب سماج کی حرکیات اور قوانین کو جان لیا جائے تو پھر ان کی بنیاد پر ابھرنے والے خیالات کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی کہ پدر شاہی اور عورت پر جبرکا مسئلہ صرف انسانی سوچ میں ہی موجود نہیں بلکہ سماج کے اندر موجود ہے اور اگر اسے سمجھ لیا جائے تو پھر سماج کو تبدیل کر کے اس سوچ اور اس عمل کا خاتمہ بھی کیا جا سکے گا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج تک کوئی شخص سماج میں موجود اس مسئلے اور سماج کی حرکیات کے قوانین کو سائنسی انداز میں نہیں جان پایا؟ 1818ء میں جرمنی میں پیدا ہونے والے مشہور انقلابی کارل مارکس اور اس کے ساتھی فریڈرک اینگلز نے اپنی تحریروں میں ان قوانین کی وضاحت کی ہے۔ ان کے نظریات کو مارکسزم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مارکسزم کے نظریے کے مطابق پدرسری سماج کا ابھار قدیم دور میں نجی ملکیت اور طبقاتی سماج کے جنم کے ساتھ ہوا تھا اور ہزاروں سالوں پر محیط انسانی تہذیب طبقاتی سماجوں پر ہی مشتمل ہے جس میں مختلف نظام رائج رہے جن میں غلام داری، جاگیرداری اور موجودہ سرمایہ داری شامل ہیں۔ ان کے مطابق آج انسانی سماج اور تکنیک اس نکتے پر پہنچ چکی ہے کہ سماج کی طبقاتی تقسیم کا مکمل طور پر خاتمہ کرتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہر شخص کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کی جاسکتی ہیں اور نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ نجی ملکیت پر مبنی موجودہ طبقاتی نظام یعنی سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ ہی پدرشاہی سماج کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ایک طبقاتی جدوجہد ناگزیر ہے جس میں محنت کش طبقہ سماج کی تمام مظلوم پرتوں کو منظم اور انکی قیادت کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نیا انسان دوست سماج تعمیر کرسکتا ہے۔

فیمنزم کا نظریہ خواتین کی آزادی کی جدوجہد کو محنت کش طبقے کی حکمرانوں کیخلاف جدوجہد سے الگ کر نے کی بات کرتا ہے۔ اس کے مطابق خواتین یا دیگر اصناف کا مسئلہ صرف وہی سمجھ سکتے ہیں اور محسوس کر سکتے ہیں اور انہیں کسی حکمران طبقے سے لڑنے کی بجائے تمام مردوں سے یا مخالف صنف کے لوگوں سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ سماج میں امیر اور غریب کی تفریق کو جان بوجھ کر پس پشت ڈال دیتے ہیں جبکہ یہ حقیقت عیاں ہے کہ امیر طبقے کی خواتین اور محنت کش طبقے کی خواتین کے مسائل میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ امیر طبقے کی خواتین بھی محنت کش مرد و خواتین پر اسی طرح ظلم و جبر کرتی ہیں جیسے اس طبقے کے مرد کرتے ہیں۔ خواہ کسی فیکٹری کی مالک کی شکل میں ہو، یا ریاستی ادارے کی سربراہ یا اعلیٰ افسر کے طور پر ہر جگہ حکام بالا سے تعلق رکھنے والی خواتین کا کردار ظالمانہ ہی نظر آتا ہے۔ ایسے میں خواتین کی آزادی کی جدوجہد کو محنت کش طبقے کی عمومی جدوجہد سے الگ کرنا درحقیقت اس سرمایہ دارانہ نظام کا آلہ کار بننے کے مترادف ہے اور ظلم کا ساتھ دینا ہے۔ فیمنزم کی منطق کے مطابق طلبہ، مزدور، کسان، مظلوم قومیتیں، خواتین سب اپنی جدوجہد علیحدہ علیحدہ کریں جبکہ مسئلے کی جڑ ایک ہی ہے، یعنی سرمایہ داری اور اس کا پروردہ فرعون صفت حکمران طبقہ۔ لہٰذا علیحدہ علیحدہ جدوجہد کرنا نا صرف جہالت ہے بلکہ حکمران طبقے کا آلہ کار بننے کے مترادف ہے۔ صنفی آزادی تب ہی ممکن ہے جب ظلم اور استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہو اور ایک ایسا سوشلسٹ سماج تخلیق ہو جہاں کوئی بھی انسان کسی دوسرے پر جبر نہ کر سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مزدور فیکٹریوں پر قبضہ کریں، ہاری جاگیروں پر اور پھر محنت کش طبقہ بحیثیت مجموعی ریاست کا کنٹرول سنبھال کر نجی ملکیت کے نظام کے خاتمے کا اعلان کرکے ہزاروں سال سے جاری پدرشاہی اور طبقاتی نظام، یعنی انسان پر انسان کے ہر طرح کے جبر کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.