2023ء میں پاکستان کے طلبہ و نوجوان اپنا مستقبل سنوارنے کیلئے کیا کریں؟

|تحریر: فضیل اصغر|

”2023ء میں پاکستان کے طلبہ و نوجوان اپنا مستقبل سنوارنے کیلئے کیا کریں؟“ یہ وہ سوال ہے جو آج بیروزگاری اور مہنگائی میں گھِرے تمام طلبہ و نوجوانوں کے ذہنوں میں موجود ہے۔ یوٹیوب اور فیس بک پر موجود موٹی ویشنل سپیکروں سے لے کر یونیورسٹیوں میں منعقد ہونے والے سیمیناروں میں اس سوال کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ مگر اس کا مقصد قطعاً بیروزگاری اور مہنگائی سمیت طلبہ و نوجوانوں کو درپیش دیگر مسائل کی وجوہات کو پہچاننا اور ان کا حل نکالنے کی کوشش کرنا نہیں ہوتا۔ موٹی ویشنل سپیکر ان موضوعات پر نوجوانوں کو جھوٹی تسلیاں دے کر اپنی دکان چمکاتے ہیں جبکہ سیمیناروں میں طلبہ کو یہ جواز دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ فیسیں دیتے رہیں، نوکری کا کچھ نا کچھ بن ہی جائے گا۔
پاکستان کا نظام تعلیم مکمل انہدام کے دہانے پر کھڑا ہے اور اعلیٰ تعلیم تو تقریباً منہدم ہو ہی چکی ہے۔ ڈگریاں، جو کہ درحقیقت تعلیمی اخراجات کی رسیدیں ہیں اور جو نوکری کی گارنٹی سمجھی جاتی تھیں، اب اپنی وہ حیثیت کھو بیٹھی ہیں۔ اس بحرانی کیفیت میں طلبہ و نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد یا تو انتہائی کم تنخواہوں پر عارضی نوکری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے یا پھر فری لانسنگ کی طرف رجوع کرتی ہے۔ فری لانسنگ بھی کوئی مستقل آمدن کا ذریعہ نہیں ہے۔ اس میں بھی کبھی کام مل جاتا ہے تو کبھی نہیں، لہٰذا ایک مستقل پریشانی کی کیفیت ہی موجود رہتی ہے۔ ہر شخص کی آمدن تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ خرچے بڑھتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی جانب سے ان مسائل کو حل کرنے کا کوئی سنجیدہ پروگرام نہیں دیا جا رہا اور لوٹ مار میں اپنا حصہ بڑھانے کیلئے بس ایک دوسرے سے لڑائیاں جاری ہیں۔ ”تبدیلی“، ”ووٹ کو عزت دو“، ”جمہوریت کی بالادستی“ کے نعرے حکمران صرف اپنی سیاست کو چمکانے اور لوٹ مار جاری رکھنے کیلئے لگا رہے ہیں۔ اب ان نعروں کا کھوکھلا پن سب کے سامنے عیاں ہو چکا ہے اور لوگ نفرت کرتے ہیں ان پارٹیوں اور ان کے جھوٹے نعروں سے۔ جرنیل اپنی لوٹ مار میں مگن ہیں اور مال کی بندر بانٹ کیلئے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ ہر جرنیل کی کوشش ہے کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف بن جائے یا کم از کم کسی اور بڑے”کھاؤ، پیو“ عہدے پر موجود ہو تا کہ سابقہ جرنیلوں کی طرح اپنی دولت میں اضافہ کر کے ملک سے باہر اپنے اثاثوں میں اضافہ کر سکے کیونکہ ملک تو ویسے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے۔ بیوروکریسی، میڈیا اور جج بھی اپنی دولت میں اضافے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ الغرض سارا حکمران طبقہ اور ریاستی افسر شاہی اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں جبکہ دوسری جانب ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور طلبہ، نوجوان اور محنت کش روزگار اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔
مگر یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر حکمران اس بحران سے نکلنے کیلئے کیوں کوئی سنجیدہ پالیسی نہیں بنا رہے؟ درحقیقت یہ مسئلہ صرف حکمرانوں کی نا اہلی اور کرپشن تک محدود نہیں ہے (اگرچہ پاکستان کے حکمران انتہا درجے کے نا اہل اور کرپٹ ہیں)۔ در اصل یہ مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہے جو آج عالمی بحران کا شکار ہے۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر رہ کر کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو یہی ممکنہ اقدامات بروئے کار لائے جا سکتے ہیں: 1) آئی ایم ایف سمیت دیگر سامراجی مالیاتی اداروں سے مزید قرضے لیے جائیں۔ 2) سرمایہ داروں کو مزید ٹیکس چھوٹ دی جائے اور سستے قرضے دیے جائیں تا کہ وہ نئی انڈسٹری لگانے کیلئے انویسٹمنٹ کریں۔ 3) اجرتوں میں مزید کمی کی جائے تا کہ سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ ہو سکے اور بزنس فرینڈلی ماحول پیدا ہوسکے۔ 4) عوام پر ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔5) عوامی اداروں کی نجکاری تیز کی جائے اور تعلیم و صحت سمیت تمام عوامی سہولیات کی فراہمی پر مزید کٹوتیاں لاگو کی جائیں۔ یہ تمام اقدامات پیپلز پارٹی، ن لیگ، پی ٹی آئی کے نام نہاد جمہوری دورِ اقتدار اور فوجی ڈکٹیٹرشپ کے عرصے میں بھی بروئے کار لائے جاتے رہے ہیں۔ مگر بحران کم ہونے کی بجائے مزید بڑھا ہی ہے، اور اب تو ملک ہی دیوالیہ ہو چکا ہے۔
اگر حقیقت پسند ہو کر دیکھا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ اب چہرے بدلنے سے نہیں بلکہ نظام بدلنے سے ہی تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ مگر سرمایہ دارانہ نظام کو پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا کیونکہ ان میں پہلے ہی سرمایہ دار اور جاگیردار بیٹھے ہیں جو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ درحقیقت یہ ادارے بنے ہی سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کیلئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کو بدلنے کیلئے ایک سوشلسٹ انقلاب کرنا ہوگا۔ جس کے بعد موجودہ سرمایہ داروں کی پارلیمنٹ، فوج، عدلیہ، پولیس، میڈیا وغیرہ کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور اقتدار انقلاب کے دوران محلوں، فیکٹریوں،تعلیمی اداروں اور کھیتوں کھلیانوں میں بننے والی محنت کشوں،کسانوں اور نوجوانوں کی جمہوری کمیٹیوں کے کنٹرول میں لے لیا جائے گا۔ اسی طرح ذرائع پیداوار(صنعت،جاگیریں،بنک وغیرہ) کی نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ تمام فیکٹریوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، بینکوں اور جاگیروں کو مزدوروں کی جمہوری ریاست کے کنٹرول میں لے لیا جائے گا۔ 1947ء سے لے کر اب تک حکمرانوں کی جانب سے لیے گئے تمام سامراجی قرضوں کو ضبط کر لیا جائے گا، کیونکہ ان میں سے ایک روپیہ بھی نہ تو محنت کش عوام نے لیا اور نہ ہی ان پر خرچ ہوا۔
اس طرح ان تمام وسائل کو سوشلسٹ ریاست تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور صنعت کاری کیلئے خرچ کرے گی۔ جب اربوں ڈالروں اور کھربوں روپے کی مالیت کے وسائل مٹھی بھر سرمایہ داروں کی ملکیت سے نکل کر محنت کشوں کے کنٹرول میں آئیں گے اور انہیں عوامی فلاح کے لئے استعمال کیا جائے گا تو پھر فوراً ہزاروں نئے اور جدید سکول، کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر کیے جا سکیں گے، سینکڑوں نئے ہسپتال بنائے جا سکیں گے، ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کر کے انتہائی سستا اور معیاری بنایا جا سکے گا، بے گھری کا خاتمہ کیا جائے گا، روزگار کے لاتعداد نئے مواقع پیدا کیے جا سکیں گے جس سے بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے سب کو باعزت اور مستقل روزگار فراہم کیا جا سکے گا۔
پاکستان کے طلبہ و نوجوانوں کو آج تباہ و برباد حال اور سیاہ مستقبل سے چھٹکارا پانے کیلئے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ جو بھی پارٹی، تنظیم، شخص، سوچ یہ بتائے کہ اپنا کیریئر بناؤ، انقلابی سیاست میں کچھ نہیں رکھا، وہ آج کے طلبہ و نوجوانوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ ایک ایسے نظام کے خاتمے کیلئے جدوجہد نہ کرنا انتہا درجے کی بیوقوفی اور خود غرضی ہوگی جس میں مٹھی بھر سرمایہ دار تمام وسائل کو کنٹرول کررہے ہیں اور امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ محنت کش عوام کی بھاری اکثریت بھوک، بیروزگاری، جہالت، لاعلاجی اور ذلت و محرومی میں ڈوبتی جا رہی ہے۔جو نظام روزگار چھین رہا ہے، ایک اچھی زندگی کے تمام خواب چھین رہا ہے، اس کے خاتمے کی جدوجہد کرنے سے روکنے والے یا تو بہت بڑے احمق ہیں، یا حکمران طبقے کا حصہ ہیں، یا پھر حکمرانوں کے دلال ہیں۔ آج سوشلسٹ انقلابی جدوجہد کے سوا زندہ رہنے کا کوئی دوسرا رستہ موجود نہیں ہے۔ جینا ہے تو لڑنا ہوگا!

مگر سوشلسٹ انقلاب کو کامیاب بنانے کیلئے جدوجہد کرنے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئیے؟ آج تک کے انقلابات کی تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سوشلسٹ انقلاب صرف وہیں کامیابی سے ہمکنار ہو سکا ہے جہاں ایک ایسی انقلابی پارٹی موجود تھی جو مارکسزم کے نظریات سے لیس اور آہنی ڈسپلن پر کاربند تھی، جیسے کہ روس میں بالشویک پارٹی۔ لہٰذا آج پاکستان کے طلبہ و نوجوانوں کو بھی ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں اور کام کی جگہوں پر مارکسزم کے انقلابی نظریات ان نوجوانوں تک لے کر جانے ہوں گے جو تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ تمام تر نسلی، لسانی، مذہبی تفریقوں سے بالا تر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر طلبہ و نوجوانوں کو منظم کرنا ہوگا۔ اسی طرح پرائیویٹ فیکٹریوں اور سرکاری اداروں کے محنت کشوں، اور کسانوں کے ساتھ بھی جڑت قائم کرنا ہوگی۔ محنت کشوں کے احتجاجوں اور تحریکوں کا حصہ بننا ہوگا۔ تعلیمی اداروں سمیت فیکٹریوں اور کھیتوں کھلیانوں میں بھی سٹڈی سرکل کرانے ہوں گے۔ اس طرح ہی ایک ایسی انقلابی پارٹی تعمیر کی جا سکتی ہے جو تمام مسائل کی جڑ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ کرنے کیلئے محنت کشوں کی قیادت کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.