|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
چند روز قبل انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کی انتظامیہ نے فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کے ”جرم“ میں سعد ابراہیم سمیت دیگر طلبہ کو یونیورسٹی سے بے دخل اور ہاسٹل الاٹمنٹ منسوخ کردی۔ سعد ابراہیم سمیت ان طلبہ کا ’جرم‘ یہ تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی فیسوں میں ہونے والے ہوش ربا اضافے، ہاسٹلز کی حالت زار اور سیکیورٹی کی غنڈہ گردی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی۔
احتجاج کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک ہفتے کے اندر مسائل حل کرنے اور کسی بھی قسم کی انتقامی کاروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی مگربعد ازاں مسائل حل کرنے کی بات کرنا تو درکنار، انتظامیہ نے اپنا حقیقی طلبہ دشمن چہرہ دکھانا شروع کردیا۔ آغاز میں سعد ابراہیم کو لالچ دے کر بہلانے پھسلانے کی کوشش کی گئی جس میں اس کو ایک یونیورسٹی سوسائٹی کی صدارت آفر کی گئی جس کو سعد نے ٹھکرا دیا۔ بعد ازاں، دیگر طلبہ پر دباؤ ڈا ل کر سعد کے خلاف بیانات پر دستخط کروائے گئے جس کو بنیاد بناتے ہوئے آخر میں سعد اور ایک اور طالبعلم کو یونیورسٹی سے بیدخل کردیا گیا۔ اب ان طلبہ کو اپیل کا فیصلہ آنے سے قبل ہی ہاسٹل خالی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ چند ماہ قبل بھی سمر سمیسٹر کے دوران ہاسٹل فیس کے نام ہر جبراً 6000روپے فی سٹوڈنٹ وصول کیے جانے کے خلاف سعد ابراہیم نے جب دیگر طلبہ کے ساتھ مل کر احتاجاج کیا تو اس وقت بھی سعد کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ سعد کی بے دخلی یونیورسٹی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ اور خوف کی غمازی ہے اور وہ اس آواز کو خاموش کروانے کے درپے ہیں۔
انجینئرنگ یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ اقدام طلبہ اور تعلیم دشمنی کا کھلا ثبوت ہے۔ یہ وائس چانسلر سے لے کر رجسٹرار اور سیکیورٹی افسر ریاست کے دلال ہیں اور پرزے ہیں جو کہ تعلیم دشمن پالیسیاں طلبہ پر مسلط کر رہے ہیں۔ ان سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ان کی اس غنڈہ گردی کا مقابلہ جدوجہد اور احتجاجوں سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ حملہ صرف سعد ابراہیم پر حملہ نہیں بلکہ یہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے ہر طالبعلم پر حملہ ہے۔ یہ ہر عام طالبعلم پر حملہ ہے جو ان مسائل سے دوچار ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فیسوں میں ا ضافے کے خلاف ہونے والا یہ احتجاج غیر قانونی ہے اور اس سے یونیورسٹی کی ’بدنامی‘ ہوئی ہے۔ اس نام نہاد قانون کی یہ حقیقت ہے کہ فیسوں میں اضافہ اور طلبہ سے لاکھوں روپے بٹورنا عین آئینی اور قانونی ہے مگر اس کے خلاف احتجاج کرنا غیر قانونی ہے۔ یونیورسٹی کے کھنڈر نما ہاسٹل جہاں بنیادی سہولیات کا ہی فقدان ہے یونیورسٹی کا ماتھے کا جھومر ہیں مگر ان مسائل کی نشاندہی کرنے سے یونیورسٹی کی بدنامی ہوتی ہے۔ فیسیں بڑھا کر محنت کشوں اور غریبوں کے بچوں کو اعلی تعلیم کے حصول سے ہی محروم کردینا قانونی اور آئینی ہے مگر سب کے لیے مفت اور معیاری تعلیم کی بات کرنا غیر قانونی ہے۔ طالبات کو ہراساں کرنا قانونی اور جائز ہے مگر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا غیر قانونی ہے۔ ہم ایسے قانون اور آئین کو نہیں مانتے جو امیروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور محنت کشوں اور غریبوں کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کردیتا ہے۔
ہم انتظامیہ کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ انتقامی کاروائیاں ہمیں اپنے حقوق کی جدوجہد سے نہیں روک سکتے۔ مفت اور معیاری تعلیم ہر پاکستانی شہری کا بنیادی آئینی حق ہے اور اس کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ فیسوں میں ہونے والا اضافہ فی الفور واپس لے اور ہاسٹلز کی حالت بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ نئے ہاسٹل تعمیر کرے۔ اگر سعد ابراہیم اور دیگر طلبہ کو فی الفور بحال نہ کیا گیا تو پروگریسو یوتھ الائنس اس غنڈہ گردی کے خلاف نا صرف انجینئرنگ یونیورسٹی بلکہ ملک گیر احتجاجی تحریک کی کال دے گا۔
سعد ابراہیم کو بحال کرو!
مفت تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں!
انجینئرنگ یونیورسٹی انتظامیہ کی غنڈہ گردی نامنظور!
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!