لاہور: یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|

fees increased in uet lahore

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔نئی فیسوں کا اطلاق رواں سال میں ہونے والے داخلوں سے شروع ہو جائے گا۔ہم حالیہ بڑھائی گئی فیسوں کا موازنہ گزشتہ سال سے کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ صرف ایک سال کے اندر فیسوں میں ہونے والے اضافے کو واضح طور پر بیان کر سکیں.

سبسڈی کے تحت پڑھنے والے طلبہ کی پچھلے سال 8 سمیسٹرز کی کل فیس 404350 روپے تھی جسے بڑھا کر 511111 روپے کر دیا گیا ہے۔یہ تقریباً 1 لاکھ سے زیادہ کا اضافہ بنتا ہے۔بغیر سبسڈی کے پڑھنے والے طالب علموں کے لیے آٹھ سیمیسٹرز کی کل فیس میں 6 لاکھ سے زیادہ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ہاسٹلوں میں رہائش پذیر طلبہ کے لیے ہاسٹلوں کی فیسیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔

الگ الگ سمیسٹر کے حساب سے دیکھا جائے تو ہر سمیسٹر کی فیس میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ ساتویں اور آٹھویں سمیسٹرز کی فیسوں میں 20000 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح باقی سمیسٹرز میں بھی 10000 روپے سے زیادہ کا اضافہ نظر آتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ غربت, بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کی اکثریت پہلے ہی بہت مشکل سے فیسیں ادا کر رہے تھے اور اب ان کے لیے تعلیم کا حصول مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ریاست کی طلبہ اور تعلیم دشمنی کی روایت برقرار ہے جس کا اظہار حالیہ بجٹ میں ہوا ہے۔ پچھلے بجٹ میں اعلی تعلیم کا بجٹ آدھا کر دیا گیا تھا اور اس بجٹ میں اس میں مزید کٹوتی کی گئی ہے۔ دوسری طرف اداروں کے مالکان کا دھندہ زوروں پر ہے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ہی چند روز قبل کچھ اساتذہ کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے اور اسی طرح اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتیاں بھی کی گئی ہیں۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ طلبہ کی فیسوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اور اساتذہ کی تنخواہیں بھی کم  جا رہی ہیں اور انہیں نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے تو طلبہ کی بھاری بھرکم فیسوں سے ہونے والی آمدنی آخر کن کی جیبوں میں جا رہی ہے؟ 

اگر ہم یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اندر طلبہ سیاست کا جائزہ لیں تو اس کا ماحول باقی یونیورسٹیوں سے یکسر مختلف ہے۔گو کہ پورے ملک میں طلبہ سیاست کا بحران تھا لیکن بہرحال باقی اداروں میں کسی نہ کسی شکل میں طلبہ سیاست زندہ رہی۔یو ای ٹی میں ایک مکمل خلا رہا ہے جو ابھی تک نہیں بھر سکا۔ ایک لمبے عرصے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کی کاوشوں کی وجہ سے  گزشتہ سال ان مسائل کے گرد ایک احتجاج کیا گیا تھا. احتجاج منظم کرنے والے طلبہ نے ایک لیف لیٹ بھی نکالا تھا جس میں ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتیوں سے طلبہ اور محنت کش ملازمین پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کو بھی زیرِ موضوع لایا گیا تھا اور کنٹریکٹ پر پڑھانے والے لیکچررز کو بھی جدوجہد کی دعوت دی گئی تھی. لیکن اس کے بعد منتظمین(جن میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکن سعد ابراھیم شامل تھے)کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں اور انہیں ایک پرامن احتجاج کی پاداش میں کچھ عرصے کے لیے ادارے سے بے دخل کر دیا گیا تھا.

یونیورسٹی میں کچھ عرصہ پہلے آئی بی ایم میں میرٹ کے علاؤہ سیٹیں مختص کی گئی ہیں جن کی فیس لاکھوں میں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اداروں کو آہستہ آہستہ نجکاری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور اس طرح کے اقدامات پہلے بھی نظر آتے ہیں جیسا کہ پارکنگ وغیرہ کے ٹھیکے۔یہ عمل دن بدن تیز ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور ہو سکتا ہے مزید لوگوں کا روزگار چھین لیا جائے۔اساتذہ میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے جو آنے والے عرصے میں احتجاجوں کی صورت ظاہر ہوگا۔ اور ہم ایک بار پھر یونیورسٹی کے ملازمین کو باور کرا دینا چاہتے ہیں کہ ان تمام تر حملوں کا مقابلہ متحد ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے اس لیے یونیورسٹی کے ایمپلائز , اساتذہ اور طلبہ کو متحد ہو کر لڑنا چاہیے.

یونیورسٹی کھلنے پر دوبارہ طلبہ احتجاج کی طرف بڑھ سکتے ہیں لیکن اس بار احتجاج کے دائرہ کار کو وسیع کرنا ہوگا۔ہم سمجھتے ہیں کہ یو ای ٹی کے اندر موجود طلبہ سیاست کے خلا کو طلبہ کے ایک جمہوری پلیٹ فارم یعنی طلبہ یونین سے پُر کیا جا سکتا ہے۔ماضی میں یونیورسٹی میں جتنے بھی طلبہ دشمن اقدامات کیے گئے ان کے خلاف کوئی مزاحمت نظر نہیں آئی کیونکہ طلبہ کے پاس کوئی پلیٹ فارم ہی موجود نہیں تھا۔اس لیے لازمی ہے طلبہ متحد و منظم ہو کر طلبہ دشمن فیصلوں کے خلاف لڑیں اور اپنے مطالبات منوائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.