سانحہ پشاور: گردنیں کاٹ بھی دوگے تو لہو بولے گا!

|تحریر:آصف لاشاری|

16دسمبر2016ء کا دن پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ آ ج سے دو سال قبل آرمی پبلک سکول پشاور میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگردوں نے حملہ کیا جس میں ڈیڑھ سو سے زائد 8سے18سال کی عمر کے معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ یہ نوجوان طالب علموں پر بربریت و سفاکیت کے حوالے سے اپنی نوعیت کا پہلا بڑا واقعہ تھا۔ اگرچہ اس واقعے کے بعد چارسدہ یونیورسٹی کو بھی خون میں ڈبویا گیا اور ان دہشتگردوں نے ویڈیو پیغام میں مستقبل میں بھی طالب علموں کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکی دی گئی۔ یہ سانحہ اپنی بربریت کے لحاط سے دنیا کی تاریخ کے بہیمانہ ترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے جس میں معصوموں کو بے دردی سے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اس واقعے نے مذہبی جنونیوں، ان کے ہمدردوں اور معذرت خواہوں کے علاوہ معاشرے کی ہر ایک پرت کو ہلا کے رکھ دیا اور ایک لمبے عرصے سے معمول بن گئی بے حسی کو ختم کر کے رکھ دیا اور اس واقعے کے بعد ہر ایک آنکھ اشکبار اور ہر دل و دماغ میں ان جنونیوں کے خلاف شدید غم و غصہ تھا۔

پاکستان بھر میں طالب علموں اور نوجوانوں میں اس واقعے کے خلاف شدید غم و غصہ موجود تھا اور حتیٰ کہ کھلم کھلا طالبان اور اس طرح کے جنونیوں کو سپورٹ کرنے والے عناصر بھی اس عوامی غم و غصہ کو بھانپتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کرنے پر مجبور تھے۔ تقریبا ہر شہر میں کالجز، یونیورسٹیوں میں طلبہ خود رو طریقے احتجاج منظم کر رہے تھے اور بہت سی جگہوں پر احتجاجوں کا اعلان بھی ہو چکا تھا کہ اسی اثناء میں حکومت نے طلبہ تحریک سے خوفزدہ ہوکر ایک ماہ کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا اور اس طرح حکومت ان احتجاجوں کو روکنے میں کامیاب ہو گئی۔ ان چھٹیوں کے خلاف طلبہ میں مزاحمت اور سوالات موجود تھے اور طلبہ کی اکثریت چھٹیوں پر جانے کو بھی تیار نہیں تھی۔ مگر طلبہ دوست تنظیمیں یا لیڈرشپ نہ ہونے کی وجہ سے اس مزاحمت کو عملی شکل نہ دی جا سکی۔

اس کے بعد حکومت نے صرف چھٹیوں پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ دہشت گردی کو بطور جواز استعمال کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو جیل خانوں میں تبدیل کردیاگیا اور اس طرح انتظامیہ طلبہ پر اپنا شکنجہ کسنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس سے ایک طرف سیکورٹی، نئی تعمیرات، خار دار تاریں لگانے کے ٹھیکوں میں یونیورسٹی و کالجوں کی انتظامیہ نے کمیشن کھایا اور دوسری طرف طلبہ پر جبر کی اس کیفیت اور کسی مزاحمت کے نہ ہو سکنے کو مد نظر رکھتے ہوئے فیسوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا گیا اور یونیورسٹیوں اور کالجز میں امتحانات، نتائج، تعلیمی اسناد کے حصول میں کئی کئی ماہ کی تاخیر سے طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ اس وقت یونیوسٹیوں و کالجز کی انتظامیہ کی اکثریت خوش فہمی کا شکار ہے کہ انہوں نے طلبہ کو اپنی مکمل پکڑ میں کر لیا ہے اور طلبہ یونین پر پابندی اور سخت سیکورٹی کے جبر کی صورت میں اب طلبہ میں مزاحمت کی سکت باقی نہیں ہے۔ مگر در حقیقت اس واقعے کے دو سال گزرنے جانے کے باوجود حکومت طلبہ کے دل و دماغ سے اس خونی واقعے کے خلاف غم و غصے اور مذہبی جنونیوں کے خلاف نفرت کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

اس خونی سانحے کے بعد دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور ان کے ہمدردوں و دہشت گردی کی نرسریوں کو ختم کرنے کے اعلانات کیے گئے مگر عملًاان دہشت گردوں کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ چند مصنوعی اقدامات کیے گئے اور اچھے طالبانوں کو ٹھہر جانے کا عندیہ دیا گیا جب کہ بروں کو بارڈر پار پر بھگا دینے یا روپوش کرا دیا گیا۔ پچھلے دو سالوں میں بار بار دہشت گرد اپنی ٹوٹی کمروں کے ساتھ انسانی جسموں کے پرخچے اڑاتے رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے ہر واقعے کے بعد سوائے مذمت کے اور کچھ سننے کو نہیں ملتا۔ موجودہ سویلین حکومت و فوجی اشرافیہ پچھلے چندسالوں میں دھماکوں کی تعداد کم ہونے کو اپنی کامیابی گردان رہے ہیں جب کہ ان حملوں میں کمی کی وجہ ضرب عضب یا نیشنل ایکشن پلان نہیں بلکہ چند دوسرے عوامل ہیں۔ مستقبل میں حکمران طبقوں کی لڑائی شدت اختیار کرنے و پراکسی جنگوں کے شدید ہونے پر ساری دہشت گرد تنظیمیں ایک بار پھر قتل و غارت کا بازار گرم کریں گی۔ اور یہ حکمران طبقہ اور ان کا نظام اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی یا انسانی قتل و غارت کو ختم کر سکے بلکہ ان کے اپنے اور ان کے نظام کے وجود کے لیے دہشت گردی و قتل و غارت بہت ضروری ہے۔ دہشت گردی و قتل و غارت انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور اس حکمران طبقے کے تمام حصے کالے دھن کی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ جہاں اس واقعے کے بعد لوگوں میں اس کے خلاف غم و غصہ موجود تھا وہیں کچھ لوگ اس قتل و غارت کو شہادت قرار دیتے ہوئے اس ظلم و بربریت کے واقعے پر فخر محسوس کرنے کی تبلیغ کر رہے تھے ’’کہ ہمیں اپنے بچوں کی شہادت پر فخر کرنا چاہئیے‘‘۔ ایسے تبلیغ کرنے والے جان بوجھ کر لوگوں کے غم و غصے کو زائل کرنے کے لیے ہی ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور ان جنونی درندوں سے وفاداری نبھارہے ہوتے ہیں۔ بے دردی سے موت کی نیند سلا دیے جانے والے بچوں کو ان کے والدین نے میدان جنگ میں نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ وہاں ان کے کلاس روموں اور کھیل کے میدانوں میں انہیں ان کے خوابوں اور امیدوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ ہمیں ان بچوں کے قتل پر فخر نہیں ہے بلکہ ہم ان جنونی درندوں سے قتل و غارت کا بدلہ لینے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔

ان بچوں کے والدین کے احتجاجوں کو نہ کسی میڈیا نے کوریج نہ دی اور نہ کسی سیاسی جماعت کی توجہ ان کی جانب گئی۔ البتہ بار بار معصوم بچوں کے قتل عام کے مناظر دکھا کر میڈیا نے خوب ناامیدی، مایوسی اور خوف کی فضا مسلط کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اور ایسا کرنا ضروری بھی تھا، آخر اپنے مالکوں کے نمک کا حق بھی تو ادا کرنا تھا۔ الٹا پشاور اور اسلام آباد میں ان احتجاج کرنے والوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔ ان متاثرہ خاندانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا رویہ اس ریاست اور اس کے اداروں کا کردار بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ طلبہ اور نوجوانوں کی ہر اول پرتیں ایسے واقعات سے اہم نتائج اخذ کر چکی ہیں اور طلبہ کی اکثریت ان خونی درندوں اور ان کے آقاؤں کو پہچان چکی ہے۔ جبر کے تمام اقدامات، جھوٹے آپریشنوں کے ناٹکوں کے باوجود حکومت ان دو سالوں میں ان مذہبی جنونیوں کے خلاف طلبہ میں پائے جانے والے غم وغصہ کومکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ طلبہ اس حکمران طبقے اور ان کے اس نظام کے کردار کو دیکھ رہے ہیں اور حکمران طبقوں کے کرتوتوں سے اہم نتائج سیکھ رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں طلبہ تعلیمی اداروں میں موجود جبر واستحصال کے خلاف لازمی طور پر مزاحمت کے عمل میں اتریں گے۔ اور یہ مزاحمتی عمل ان کے شعور کو مہمیز دے گا جو انہیں ایک زیادہ بڑی اور سنجیدہ لڑائی کی طرف راغب کرے گا۔ اس وقت حکمرانوں کے کوئی ناٹک و حربے کامیاب نہیں ہوں گے۔ اس وقت ترقی پسندوں و انقلابیوں کا اہم فریضہ طلبہ تک متبادل نظریات پہنچانا اور طلبہ کی ہر اول پرتوں کو اپنے ساتھ اس ظلم و بربریت پر مبنی نظام کے خلاف لڑائی میں منظم کرنا ہے۔ طلبہ سیاست کی زوال پذیری کو ختم کرتے ہوئے ایک بار ماضی کی طلبہ سیاست کی شاندار روایات کو دہرانا ہے اور اس ظلم و بربریت و ناانصافی پر مبنی طبقاتی نظام کے خلاف محنت کشوں کے شانہ بشانہ حتمی لڑائی لڑنا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.