امکانات کو حقیقت کی جانب موڑتی ٹیکنالوجی کی ترقی اور بحران زدہ تعلیمی نظام!

|تحریر: جلال جان|

سرمایہ دارانہ نظام کا بحران زندگی کے ہر شعبے میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ بحران کے تشویشناک اثرات تعلیم اور صحت جیسے شعبوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر سرمایہ دارانہ بحران کے اثرات سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سرمایہ داری میں تعلیم دی کیوں جاتی ہے؟ دراصل سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیم دینے کا مقصد ہی سرمایہ دار کے لئے مزید ہنر مند مزدوروں کی کھیپ پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ سرمائے میں مزید تیز ترین اضافہ کر سکیں۔ لیکن پھر اسی تیز ترین منافعوں کی ہوس نے سرمایہ داری کے ترقی کے عہد میں تعلیم کے شعبے میں بے پناہ ترقی کی۔ جس کا واضح اظہار ٹیکنالوجی اور پیداواری قوتوں کی ترقی کی صورت میں ہمیں نظر آتا ہے۔ اس بے پناہ ترقی کا اظہار صرف چند دہائیوں کے اندر سرمایہ دارانہ نظام میں ہی جینیاتی انجینئرنگ سے لے کر کوانٹم فزکس جیسے شعبوں میں ہونے والی تحقیقات ہیں جو ایک سوشلسٹ نظام میں مزید نئے مراحل طے کریں گی۔

لیکن 2008ء کے معاشی بحران کے بعد حکمران طبقات نے تمام تر بحران کا بوجھ محنت کشوں پر ڈال دیا، جس میں اجرتوں میں کٹوتیوں سے لے کر تعلیمی شعبے کی بے تحاشا کٹوتیاں شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر کالج ڈراپ آؤٹس (کالجز سے نکالے گئے طلبہ) میں 26 فیصد اضافہ ہوا۔ اتنے عرصے سے تعلیمی بجٹ میں ہونے والی مسلسل کٹوتیوں اور روزگار کی منڈی میں بڑھتے ہوئے دباؤ سے اسی طرح کے تشویشناک نتائج ہی برآمد ہونا تھے۔ یہ صرف ایک تخمینہ ہے اسکے علاوہ بھی سرمایہ داری میں ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو کبھی کالج یا سکول جا ہی نہیں پاتی۔ اس کی اصل وجہ پھر تعلیم کا کاروبار ہے۔ اس لیے اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو تعلیم بھی آپ کے لئے نہیں ہے!

اس ساری کیفیت میں ہم پاکستان کے تعلیمی نظام کی صورتحال دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ یہاں شروع دن سے ہی تعلیم کا شعبہ ریاست کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی میں سے تعلیم پر خرچ کرنے والا 155 واں ملک ہے جوکہ جی ڈی پی میں سے صرف 1.77 فیصد ہی تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ اسی جی ڈی پی میں سے اسلحے کی خریداری پر خرچ کرنے والے 10 بڑے ممالک میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں 45 فیصد بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد بڑھ کر 50 فیصد ہونے والی ہے۔ جو تعلیم پہلے محنت کش طبقے کے بچوں کی پہنچ سے دور تھی، اب درمیانے طبقے کی بھی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ اس سے قبل جو 2 سالہ ڈگری پر مبنی نسبتاً سستے پروگرام ہوتے تھے، جن تک محنت کشوں کے بچے بمشکل تعلیم حاصل کرلیتے تھے، وہ دروازے بھی اب بند کردیے گئے ہیں اور اب ملک بھر میں مہنگے چار سالہ ڈگری پروگرام ہی چل رہے ہیں۔

ایچ ای سی کے اعداد و شمار کے مطابق یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد میں ایک لاکھ تک کی کمی آئی ہے جوکہ 25 فیصد کمی بنتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یونیورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی فیسیں ہیں۔ پچھلے عرصے میں تعلیمی بجٹ میں 45 فیصد کمی کی گئی اب وہ کمی 50 فیصد تک کی جائے گی۔ تعلیمی بجٹ میں کمی کر کے سرکاری یونیورسٹیوں کو یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنے خرچے خود پورے کریں، جس میں ان کے پاس واحد حل موجودہ فیسوں میں اضافہ کرنا ہی ہے۔ صرف پچھلے دو سالوں میں یونیورسٹیوں کی فیسوں میں 100 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس میں رہائش اور کھانے کے ا خراجات شامل نہیں ہیں۔ اسی عرصے میں پاکستان میں افراط زر میں تاریخی اضافہ ہوا ہے اور بڑھتی ہوئی فیسوں کے خلاف پورے پاکستان میں طلبہ کے بہت سے احتجاج دیکھنے کو ملے ہیں جن میں آنے والے عرصے میں مزید اضافہ ہوگا۔

جہاں کرونا نے تعلیمی نظام کے تضادات کو سطح کے اوپر لا کھڑا کیا ہے وہیں دوسری طرف کرونا کے دوران نامیاتی طور پر ایسی صورتحال بن گئی کہ آن لائن کلاسز نے پاکستان جیسے ممالک میں کہ جہاں دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی تک نہیں تھی، پاکستان کے پہلے سے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑے تعلیمی نظام کو مکمل زمین بوس کردیا، جس کے اثرات اب مسلسل دیکھنے کو ملیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرونا وباء نے یہ بھی واضح کردیا کہ سرمایہ دارانہ نظامِ تعلیم میں ڈگریاں تقریباً غیر متعلقہ ہوچکی ہیں۔ کرونا وباء کی ہی پیدا کردہ اس نامیاتی صورتحال نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ آج کے عہد میں تعلیم کس قدر ڈیجیٹلائز ہوچکی ہے۔ آج انجنئیرنگ کا کوئی طالب علم فلسفے کی کلاسز اپنے پسند کے استاد سے لے سکتا ہے۔ اس صورتحال میں کسی بھی ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم کسی اور مضمون کا کورس لے سکتا ہے۔ لیکن اس تمام صلاحیت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ان نئی پیش رفتوں سے مکمل طور پر مستفید نہیں ہوا جاسکتا۔

اسی طرح پاکستان کی یونیورسٹیوں کی حالت زار دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ ان کا تقریباً سارا تعلیمی نظام ہی اسائنمنٹس اور کوئیز پر مبنی ہے۔ حال ہی میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کے شعبے کے میں ہونے والی شاندار ترقی بے پناہ مثبت اثرات برپا کر سکتی ہے۔ مگر پاکستان کا نظام تعلیم تو اس سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہاں تو اُلٹا AI سے بھی اسائنمنٹس اور کوئیز تیار کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے آج طلبہ کی ایک بڑی تعداد تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی کام کرنے پر بھی مجبور ہے۔ ایسی صورتحال میں تعلیم کی طرف توجہ دینا ممکن نہیں رہتا۔ اسی وجہ سے جھٹ پٹ سے AI سے اسائمنٹ بنانا زیادہ آسان رہتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ طلبہ کی کوئی فطری عدم دلچسپی نہیں ہے کہ تعلیم و تحقیق نہ کریں بلکہ وہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظامِ تعلیم سے بیزار ہیں۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے عہد میں کوئی بھی مادی ترقی زندگی کے شعبوں کو آسان کرنے کے بجائے مزید گھمبیر کردیتی ہے۔

ویسے تو سرمایہ دارانہ نظام تعلیم میں ڈگری کا مقصد نوکری لینا ہوتا ہے، مگر آج کے عہد میں نیا روزگار ہی نہیں ہے۔ بلکہ آج تو جن کے پاس روزگار ہے، انہیں بھی برطرف کیا جارہا ہے۔ پاکستان جیسی دیوالیہ معیشت میں صرف ٹیکسٹائل سیکٹر سے 70 لاکھ مزدوروں کو نوکری سے نکالا گیا ہے۔ اسی طرح باقی شعبوں میں بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کیا جا رہا ہے، نئے روزگار پیدا ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ روزگار کی عدم موجودگی کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد (جس میں پھر بڑی تعداد میں طالبعلم بھی شامل ہیں) نے فری لانسگ کا رُخ کیا ہے۔ جہاں وہ اپنے متعلقہ شعبے میں کام اور تجربہ حاصل کرنے کی بجائے غیر متعلقہ شعبہ جات کی کمپنیوں کے استحصال کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے فری لانسگ کی انڈسٹری میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی نصاب کو پچھلے 76 سالوں میں کبھی بھی اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ ویسے تو ہر سرمایہ دارانہ ملک میں نصاب سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کے تحت ہی ترتیب دیا جاتا ہے، مگر پاکستان کے انتہائی پسماندہ اور رجعتی حکمرانوں نے یہاں نصاب کو بھی انتہائی پسماندہ اور رجعتی انداز میں ہی ترتیب دیا ہے۔ آج کے عہد میں اس نصاب اور دور حاضر کے تقاضوں میں ناقابلِ عبور فاصلہ آگیا ہے۔ یہ ناقابلِ عبور فاصلہ محض آج ہی نہیں بلکہ پاکستان کے نظامِ تعلیم کے تحت روز اول سے موجود رہے ہیں، لیکن خاص کر گزشتہ عرصے میں سائنس اور دیگر شعبوں میں جتنی زیادہ جدت اور ترقی ہوئی ہے اس کے سبب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں سے اس نظام کے رہتے واپس نہیں آیا جاسکتا۔

ٹیکنالوجی میں اتنی زیادہ ترقی ہوئی ہے کہ اسے بروئے کار لاتے ہوئے تعلیم کے شعبے کو بہت زیادہ بہتر بنایا جاسکتا ہے، لیکن اسکے لئے تعلیم سمیت پورے نظام کو سرمائے کی زنجیروں سے آزاد کروانا پڑے گا۔ آج تمام ٹیکنالوجی جوکہ بڑی بڑی ٹیک کمپنیوں کی نجی ملکیت ہے، اسے مشترکہ ملکیت میں عوامی فلاح کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔ ان تمام چیزوں کو بروئے کار لانے کیلئے آج سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کے حصول کے لیے انقلابی پارٹی کی تعمیر کو تیز کرتے ہوئے یہاں محنت کش طبقے کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب لانا ہوگا، جسے طلبہ و نوجوان انقلابی نظریات کی معاونت فراہم کریں گے۔ صحت، تعلیم، خوراک اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی اور ایسے سماج میں انسان تمام ترقی کو استعمال کرتے ہوئے فطرت کو تسخیر کرے گا اور وہی حقیقی انسانی سماج ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.