کورونا وباء اور بدلتا تعلیمی منظر نامہ

|تحریر: عادل راؤ|

کورونا وباء کے نتیجے میں پوری دنیا میں دیو ہیکل سماجی و معاشی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر بھی اس کے گہرے اثرات پڑے ہیں۔ وباء کے باعث فزیکل ایجوکیشن جاری رکھنا ممکن نہیں تھا جس کے لیے دنیا بھر میں آن لائن تعلیم متعارف کروائی گئی۔ گو کہ آن لائن تعلیم کا تصور پہلے بھی موجود تھا اور کئی ایک ادارے اس سے مستفید بھی ہو رہے تھے لیکن بہت محدود پیمانے پر، مگر اب دنیا کے تقریبا تمام ادارے آن لائن تعلیم کے طریقہ کار کو استعمال کر رہے ہیں۔

 

آن لائن تعلیم نے پوری دنیا کے اساتذہ کو طلبہ سے جوڑنے کا طریقہ بھی متعارف کروا دیا ہے۔ اب ایک طالب علم پوری دنیا میں اپنی پسند کے کسی بھی استاد سے پڑھ سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر وہ اپنی ڈگری پروگرام میں موجود کورسز یا سبجیکٹس کی سلیکشن بھی خود کر سکتا ہے، یعنی اگر کوئی انجینئرنگ یا میڈیکل کا طالب علم فلسفہ یا تاریخ میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ اسے اپنی ڈگری پروگرام میں بطور سبجیکٹ انتخاب کر سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ آن لائن تعلیم نے روایتی وقت کی بندش کو بھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔ آپ 24 گھنٹوں میں سے اپنی سہولت کا وقت نکال کر اس مخصوص وقت میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ محض چند مثالیں ہیں جن سے تعلیمی نظام میں موجود ترقی کے پوٹینشل کو سمجھانا مقصود ہے۔

لیکن یہ محض پوٹینشل ہی ہے اور موجودہ نظام (سرمایہ داری) میں اسے حقیقت کا روپ دیا بھی نہیں جا سکتا۔ ہر شے یا سروس کی طرح اس نظام میں تعلیم بھی منافع کا ایک ذریعہ ہے اور اس کا مقصد انسانی شکل میں ایک ایسا روبوٹ تیار کرنا ہے جو مخصوص ہنر سیکھ کر کسی مخصوص صنعت میں اپنے مالک کے سرمائے میں اضافہ کرے۔ مثلا سرمایہ دارانہ نظام میں آن لائن تعلیم کو بھی منافع میں تیز ترین اضافے کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ ایک ہی استاد سے آن لائن چار سو سے پانچ سو طلبہ کی کلاس کو لیکچر دلوایا جا رہا ہے اور باقی اساتذہ کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے، اور اس ایک ٹیچر کو بھی آن لائن ایجوکیشن کی وجہ سے آدھی تنخواہ دی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اس نظام میں چونکہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد نوکری کا حصول ہے اور اس کے لیے مخصوص برانڈ کی ڈگری، جس کی مارکیٹ ویلیو ہو، درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا طلبہ کے پاس نہ اپنے شوق اور پسند کا ڈگری پروگرام منتخب کرنے کی آزادی ہے اور نہ ہی اپنی پسند کا استاد۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈاون کے بعد تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے جو کہ تاحال بند ہیں (جبکہ سماج کا دیگر ہر شعبہ چل رہا ہے)۔ ہم اگر پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیم کے شعبہ کا سرسری جائزہ لیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ آج تک ریاست نے تعلیم کے شعبہ پر برائے نام ہی خرچ کیا ہے۔ آج بھی کل بجٹ کا محض اڑھائی فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے اور اس کا بھی بڑا حصہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسروں کی موٹی موٹی تنخواہوں، دیگر سہولیات اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، اس کے بعد جو بچتا ہے وہ تعلیم کا حقیقی بجٹ ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی کل تعداد اڑھائی کروڑ سے بھی زائد ہے جو کل تعداد کا 44 فیصد ہے۔

شعبہ تعلیم کی اتنی خطرناک صورت حال کے باوجود تعلیم کا بجٹ مسلسل کم کیا جا رہا ہے۔ 2017ء میں تعلیم پر کل بجٹ کا 2.9 فیصد خرچ کیا گیا جو کہ 2019ء میں کم ہو کر 2.4 فیصدکر دیا گیا۔ اس نام نہاد تبدیلی سرکار نے HEC کا 45 فیصد بجٹ ختم کر دیا ہے اور یونیورسٹیوں کو حکم نامہ جاری کیا ہے کہ وہ اپنا خرچ خود اٹھائیں۔ جس کا واحد مطلب یہ ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے محنت کشوں اور متوسط طبقے کے طالب علموں کی فیسوں میں اضافہ کیا جائے، ان کے ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کے چارجز میں اضافہ کیا جائے، ان کی سکالرشپس ختم کی جائیں اور وہ سہولیات جن پر یونیورسٹی کا خرچہ ہو رہا تھا اب طلبہ سے چھین لی جائیں۔ یہ ان حکمرانوں کی تعلیم دشمنی کا سب سے بڑا ثبوت ہے، لیکن صرف محنت کش طبقے کے لیے، ان کے اپنے بچے تو دنیا کے مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اس متروک نظام تعلیم میں کورونا وباء کے باعث لگنے والے لاک ڈاون کے بعد جب آن لائن تعلیم کا نظام متعارف کروایا گیا تو وہ محض مذاق اور فراڈ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ جس کے لیے ضروری پلاننگ اور اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی ضروری وسائل مہیا کیے گئے۔

آن لائن تعلیم کے لیے ضروری تھا کہ پہلے اساتذہ کی ڈیجیٹل ایجوکیشن کے لیے تیاری کروائی جاتی، تمام علاقوں بالخصوص بلوچستان، اندرون سندھ، جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان اور کشمیر میں تیز انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی جاتی، آن لائن تعلیم کے سپیشل پلیٹ فارم بنائے جاتے، تمام طلبہ کے پاس ضروری گیجٹس جیسے کہ لیپ ٹاپ وغیرہ کی فراہمی یقینی کی جاتی۔ لیکن ان میں سے کچھ بھی نہیں کیا گیا اور انٹرنیٹ پر پہلے سے موجود زوم ایپ اور واٹس ایپ کو استعمال کر کے آن لائن کلاسز کا اجراء کر دیا گیا۔

پاکستان جیسے پسماندہ سماج میں بنا تیاری کے آن لائن تعلیم کو اوپر سے لاگو کرنے کا مطلب ہے کہ جو چند فیصد تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان سے بھی تعلیم چھین لی جائے۔ اس قدم کا واحد مقصد تعلیمی مافیا کا فیسیں بٹورنا تھا۔

اس تمام ظلم کے خلاف ہم نے کشمیر سے لے کر کراچی تک ملک گیر طلبہ کے احتجاج بھی دیکھے، جو کو ایک متحد پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے کٹے ہوئے تھے۔ اسی دوران ہم نے سکالرشپس ختم کئے جانے کے خلاف بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے بلوچ طلبہ کا کامیاب مارچ بھی دیکھا اور میڈیکل کالج کے طلبہ کا پی ایم سی کے کالے قوانین کے خلاف احتجاج بھی ہوئے جو تا حال جاری ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ، یہاں کی تمام سیاسی جماعتیں اور سول و ملٹری اشرافیہ تعلیم دشمن، طلبہ دشمن اور محنت کش دشمن ہیں۔ انہوں نے ستر سال میں تعلیم جیسی بنیادی سہولت بھی یہاں کے عوام کو نہیں دی ہے اور یہاں کے طلبہ سے اپنا حق مانگنے تک کا اختیار بھی طلبہ یونین پر پابندی لگا کر چھین لیا ہے۔ اب ہمیں ملک گیر سطح پر طلبہ اور نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا ہوگا۔ طلبہ کی تمام چھوٹی بڑی تحریکوں کو جوڑ کر ملک گیر تحریک کا آغاز کرنا ہوگا، جس کے ذریعے ہم مفت تعلیم اور طلبہ یونین کا حق حاصل کریں گے اور اس لڑائی کو محنت کش طبقہ کی جدوجہد سے جوڑ کر اس غلیظ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کریں گے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.