|تحریر: ایڈووکیٹ جی ایم |
پہلی جنگ عظیم کے بعد غازی امان اللہ خان نے تیسری افغان اینگلو جنگ کے بعد 1919ء میں افغانستان کے استقلال کا اعلان کیا۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ افغانستان کی اس آزادی کے پیچھے سوویت یونین مخلصانہ طور پر کھڑا تھا اور سوویت یونین کے ساتھ غازی امان اللہ خان کے انتہائی دوستانہ تعلقات تاریخ کا ورثہ ہیں اور ساتھ میں ہی افغانستان کو پسماندگی سے نکال کر ایک سماجی و معاشی طور پر جدید و ترقی یافتہ ریاست بنانے کے لیے غازی امان اللہ خان نے ترقی پسند اصلاحات کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ جب برطانوی سامراج کو غازی امان اللہ خان کی یہ ترقی پسند اصلاحات کانٹے کی طرح چبھنے لگیں تو برطانوی سامراج نے غازی امان اللہ کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سازشوں کا باقاعدہ آغاز بچہ سقا (حبیب اللہ کلکانی) جیسے سامراجی دلال کے ذریعے کر دیا۔ ان سامراجی سازشوں کے ذریعے غازی امان اللہ خان کو اقتدار سے ہٹا کر بچہ سقا جیسے کٹھ پتلی کو اقتدار سونپا گیا جس کو بعد میں غازی امان اللہ خان کے فوجی جرنیل نادرشاہ نے انگریز سامراج کی مدد سے واپس اقتدار سے بے دخل کیا۔ اور خود نادرشاہ نے اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھال لی لیکن نادرشاہ کے قتل کے بعد اس کے کم عمر بیٹے ظاہر شاہ کو منصب اقتدار پر بٹھا دیا گیا جو کے 70 کی دہائی تک منصب اقتدار پر براجمان رہا۔ جس کو بعد میں داؤد خان نے سویت یونین کی حمایت اور پی ڈی پی اے کے پرچم فیکشن کی مدد سے اقتدار سے نکال باہر کیا اور داؤد اقتدار پر خود قابض ہوگیا۔
پی ڈی پی اے کی تعمیر سے انقلاب تک کا سفر
غازی امان اللہ خان کے دور اقتدار کے خاتمے کے بعد افغانستان کو نادرشاہ نے پوری دنیا سے الگ کررکھا تھا۔ لیکن اس پورے عمل کے دوران افغان سماج میں ترقی پسندی سے جڑے لوگ مختلف سٹڈی سرکلز اورچھوٹی انجمنوں میں مصروف عمل تھے۔ ان سب میں نمایاں تنظیم ویش زلمیان تھی۔ جس کی بنیاد کامریڈ نور محمد ترہ کئی نے سیاسی و ادبی نوجوانوں پر مشتمل تنظیم کے طور پر رکھی جو مختلف سٹڈی سرکلز کے ذریعے افغان سماج میں سوشلسٹ نظریات کا پرچار کرتے رہے۔ 1965ء میں جب ظاہر شاہ نے آئین میں سیاسی پارٹیوں کے لیے سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لیے اصلاحات کیں تو باقاعدہ طور پر کامریڈ نور محمد ترہ کئی کے گھر پر 1965ء میں خلق ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، جس میں ویش زلمیان سمیت دیگر ترقی پسند تنظیموں و انجمنوں کو باقاعدہ طور پر پارٹی کے اعلان کے بعد پارٹی میں ضم کیا گیا۔ لیکن 1967ء میں پارٹی میں سپلٹ ہوئی، یہ سپلٹ ریڈیکل نظریات پر کھڑے اور مصالحانہ و سمجھوتہ کرنے والوں میں تھی۔ پی ڈی پی اے دو دھڑوں یعنی خلق جس کی قیادت کامریڈ نور محمد ترہ کئی کر رہا تھا اور مصالحانہ اور سمجھوتے کی طرف رجحان رکھنے والے پرچم دھڑے کی سربراہی ببرک کارمل کر رہا تھا۔ سپلٹ کے بعد خلق پارٹی کے انقلابی کیڈرز نے حفیظ اللہ امین کی سربراہی میں تیزی کیساتھ دیہاتوں، شہروں، یونیورسٹیوں میں اپنے کام کا آغاز کیا جو کہ 7319ء میں داؤد کے اقتدارپر قبضے کے بعد مزید تیز ہونے لگا۔جس کے بعد کامریڈ امین کی سربراہی میں فوج کے اندر انتہائی تیزی کے ساتھ ریکروٹمنٹس ہونے لگیں۔جو بعد میں داؤد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ڈیتھ وارنٹ ثابت ہوا۔ پارٹی کی تعمیر سے لے کر انقلاب تک سفر میں چند ایک افراد کی گرفتاری کے علاوہ باقی کوئی سخت اور کھٹن واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ لیکن پارٹی کی تعمیر کا آغاز اندرونی طور پر انتہائی کمزور بنیادوں پر کیا گیا تھا۔ جس میں بالخصوص 1967ء میں سپلٹ کے بعد پارٹی اندرونی طور پر کمزور ہونے لگی، مگر خلق دھڑے نے نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین کی قیادت میں اپنے کام کے اندر انتہائی جرات مندی اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت کم عرصے میں پورے افغانستان کے دور دراز علاقوں میں پارٹی کی بنیادیں ڈالنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی۔
1976 ء پرچم اور داؤد کے درمیان اختلافات
پرچم دھڑا چونکہ روز اول سے مصالحت اور سمجھوتے کی پالیسی پر عمل پیرا تھا لیکن جب داؤد خان نے ظاہر شاہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اقتدار پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنا شروع کیا اور اسی دوران داؤد کے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہونے لگے تو داؤد پرچم دھڑے کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھنے لگا، دوسری طرف پرچمی بھی داؤد کے آمرانہ طرز حکومت سے نالاں تھے۔ جس کے بعد داؤد نے مکمل طور پر پرچم دھڑے کو اقتدار سے بے دخل کر دیا جس کے بعد سوویت یونین کی ایما پر خلق و پرچم دھڑوں کا آپس میں مصنوعی انضمام کروایا گیا۔ لیکن انقلاب کے بعد یہ مکمل طور پر عیاں ہوگیا کے یہ دو دھڑے کبھی بھی آپس میں سیاسی و نظریاتی طور پر متحد نہیں ہو پائے تھے کیونکہ پرچم دھڑے کا طرز عمل ہمیشہ متذبذب اورسوویت بیوروکریسی کے رحم و کرم پر تھا۔جس کا اظہار وہ انقلاب کے بعد وقتاً فوقتاً کرتے رہے تھے، جس میں مشہور سازش کو عید کی سازش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس میں براہ راست ببرک کارمل اپنے پرچمی ساتھیوں کے ساتھ ملوث تھا۔ جبکہ کئی ایسے مزید واقعات ہیں جن میں پرچم دھڑے نے کبھی بھی پارٹی کے اتحاد کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔
17 اپریل 1978ء استاد امیر خیبر کی شہادت
یہ وہ دن تھا جب کابل میں دن دیہاڑے استاد امیر خیبر جوکہ پرچم دھڑے کا ایک انتہائی مخلص رہنما تھا۔ جس کی شہادت میں مختلف تاریخی تحریروں کے مطابق ببرک کارمل اور سوویت سفارت خانے کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ کیونکہ سوویت یونین کی بیوروکریسی پرچم دھڑے کو فوجی کُو کے ذریعے اقتدار دلوانا چاہ رہی تھی۔ جبکہ امیر خیبر نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی، جس کی پاداش میں انہیں منظرعام سے ہٹانا ببرک کارمل کے لئے ناگزیر ہوگیا۔ امیر خیبر کی شہادت پر کابل میں ہزاروں افراد نے امیر خیبر کے جنازے میں شرکت کی، اس موقع پر خلق ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر شپ نے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قتل کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔ اس تقریر کی پاداش میں داؤد حکومت نے خلق ڈیموکریٹک پارٹی کی تمام قیادت کو گرفتار کرکے پھانسی دینے کا حکم دے دیا۔ جس کے بعد خلق ڈیموکریٹک پارٹی کی تمام تر قیادت کو گرفتار کیا گیا اور کچھ کو گھروں پر نظر بند کیا گیا جن میں کامریڈ امین بھی شامل تھے جس نے گھر پر نظر بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج میں موجود انقلابی کیڈرز کو داؤد رجیم کے خلاف متحرک ہونے کا مکمل منصوبہ بنا کر انقلابی فوجی کیڈرز کے حوالے کر دیا۔ جس پر عمل کرتے ہوئے خلق فوج کے انقلابی کیڈرز نے داؤد کے خلاف انقلاب برپا کر دیا اور جلد ہی اقتدار کا مکمل کنٹرول حاصل کر کے خلق ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر شپ کے حوالے کر دیا۔ انقلاب ثور کے برپا ہونے کے بعد صرف اور صرف داؤد اور صدارتی محل میں موجود اس کا خاندان مارے گئے باقی افغان عوام انقلاب کے برپا ہونے کے بعد انقلاب کی حمایت میں نکلے۔ تقریر کی پاداش میں موت کا فرمان جاری کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ انقلاب خلق ڈیموکریٹک پارٹی پر مسلط کیا گیا کیونکہ قیادت کی زندگی بچانے کے لیے فوج میں موجود انقلابی کیڈرز نے یہ انتہائی انقلابی قدم اٹھایا۔
انقلاب ثور کی حاصلات
انقلاب برپا ہونے کے بعد خلق ڈیموکریٹک پارٹی نے فوراً سوشلسٹ اصلاحات شروع کر دیں۔ جن میں زرعی زمینوں کی منصفانہ تقسیم، خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں برابری کی بنیاد پر کام کرنے کی آزادی، ردانقلابیوں اور انقلاب دشمن عناصر کی شہریت کا خاتمہ، سود کا مکمل خاتمہ، مفت تعلیم رائج کرنا اور تعلیمی انفراسٹرکچر کو ڈیویلپٹ کرنا اور بڑھانا، تمام محکوم قوموں کی محکومی ختم کر کے زبانوں کی ترویج و سرکاری درجہ دینا،خواتین کو شادی کرنے میں آزادی کا حق دینا، جہیز جیسی لعنت کا خاتمہ اور زندگی کے باقی شعبوں میں انتہائی انقلابی اصلاحات کی گئیں۔ ان اصلاحات نے جمود زدہ افغان سماج کو ایک انتہائی ترقی پسندانہ جست دی، جس کے جلد افغان سماج پر دور رس نتائج برآمدہونے لگے۔ لیکن انقلاب ثور کی یہ انقلابی اصلاحات سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح چبھنے لگیں، کیونکہ اس خطے میں انقلاب ثور محنت کشوں، دہقانوں، نوجوانوں اور مظلوموں کی فتح کی علامت تھا، جس نے فرسودہ نادرشاہی باقیات کا خاتمہ کر کے ایک سوشلسٹ سماج کی طرف قدم بڑھائے تھے جو کہ سرمایہ دارانہ قوتوں کو کسی طور پر بھی قابل قبول نہ تھا۔
انقلاب کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز
اندرونی طور پر انقلاب ثور کو درپیش چیلنجز میں پرچم دھڑے کی غداریاں، خلق پارٹی کی اندرونی کمزوریاں، ناتجربہ کاری، اور انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی/قلت جیسے چیلنجز درپیش تھے۔ پرچم دھڑا مسلسل سوویت یونین کی ایما پر انقلاب ثور کو ناکام کرنے کی کوششیں کر رہا تھا۔ جس کو کامریڈ حفیظ اللہ امین اور کامریڈ نور محمد ترہ کئی نے کئی بار انتہائی دلیری سے ناکام بنا دیا تھا۔ دوسری طرف سوویت یونین سے خلق ڈیموکریٹک پارٹی دوستانہ اور برابری کے بنیاد پر تعلقات کی خواہاں رہی، جبکہ سوویت یونین خلق ڈیموکریٹک پارٹی کی انقلابی حکومت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کا خواہاں نہ تھا، بلکہ وہ انقلاب ثور کو بھی بیوروکریٹک طرز عمل پر اپنے احکامات پر چلانا چاہتا تھا۔ جس کے کامریڈ حفیظ اللہ امین سخت خلاف تھا اور وہ اس طرز عمل کو مکمل رد کر رہا تھا، جس پر سوویت یونین نے کامریڈ امین اور نور محمد کے درمیان اختلافات بڑھانے کی مسلسل کوشش کی اور اس درمیان نور محمد ترہ کئی کو متنازعہ طور پر شہید کیا گیا۔اس شہادت کو بہانہ بنا کر کامریڈ امین کے خلاف پروپیگنڈا مزید تیز کیا گیا، حفیظ اللہ امین کو تختہ اقتدار سے ہٹانے اور ببرک کارمل کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے لیے کئی سازشیں کی گئیں مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن امریکی سامراج بھی اس انقلاب کی پیش رفت سے خائف تھا، لہٰذا جب اس نے اس انقلاب کے خلاف آپریشن سا ئیکلون کے ذریعے براہِ راست مداخلت کی تو اس کو بنیاد بنا کر سوویت یونین کو بھی فوجی مداخلت کا موقع مل گیا۔ بالآخر سوویت یونین نے 27 دسمبر 1979ء کو افغانستان میں فوجی مداخلت کر کے انقلاب کے عظیم رہنما کامریڈ امین کو نہ صرف شہید کیا بلکہ ببرک کارمل جو انقلاب کے خلاف سازش کے بعد مسلسل روپوش تھا کو ٹینکوں پر بٹھا کر اقتدار پر مسلط کیا گیا۔ اقتدار ملنے کے بعد پرچم دھڑے نے کامریڈ امین کے انقلابی کردار کو مسخ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا شروع کیا۔ جبکہ دوسری طرف بیرونی چیلنجز میں امریکی سامراج اور اس کی دلال ریاستیں پاکستان، ایران اور سعودی عرب وغیرہ جیسے ممالک بھی انقلاب کے بعد مکمل طور پر متحرک ہو چکے تھے اور ڈالری جنگ کو افغانستان پر مسلط کرنے کی بڑے پیمانے پر تیاری ہونی لگی تھی، لیکن جب سوویت یونین نے مداخلت کی تو امریکی سامراج نے انتہائی تیزی کے ساتھ ڈالری جہاد پورے افغان سماج میں پھلا دیا جس کی چنگاریاں آج تک بھڑک رہی ہیں۔
موجودہ افغانستان اور انقلاب ثور
افغان ثور انقلاب کو خون میں ڈبونے والے عالمی دہشتگرد امریکی سامراج اور اس کی دلال حواری ریاستیں جن میں پاکستان، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے جن قوتوں کے ذریعے افغان ثور انقلاب کیخلاف منظم طریقے سے نام نہاد پٹرو ڈالر جہاد کا کھیل کھیلا، ان قوتوں کو امریکی سامراج کی افغانستان میں شرمناک شکست کے بعد پھر مسند اقتدار پر لاکر بٹھا دیاگیا ہے۔ اور آج افغانستان کے مظلوم و محکوم عوام جن مشکلات اور تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں، وہ شاید نوے کی دہائی میں خانہ جنگی سے بھی زیادہ ہونگے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اس وقت افغانستان میں موجود چار کروڑ کے قریب آبادی کا 90 فیصد حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جبکہ 27 ملین افراد شدید قحط و بھوک کاشکار ہیں۔ مظلوم عوام اپنی روزانہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جسمانی اعضاء سمیت اپنی کمسن بچیوں کو بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لیکن سامراجی پشت پناہی میں مسلط رجعتی قوتوں کے پاس ان مظلوم عوام کو دینے کے لیے جبر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق آج بھی افغانستان کے بجٹ کا نصف حصہ سکیورٹی کی مد میں ان دہشت گردوں کے ہاتھوں خرچ کیا جاتا ہے۔ جبکہ طالبان کے اندر ایک اہم تبدیلی رونما ہو چکی ہے کہ ان کے درمیان گروپ بندیاں واضح ہو چکی ہیں اور وہ افغانستان کے وسائل کو لوٹنے میں مختلف سامراجی آقاؤں کے ساتھ مگن ہونے لگے ہیں، جس کی کئی ساری مثالیں موجود ہیں۔ مستقبل میں طالبان کی ان گروپ بندیوں میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات موجود ہیں، کیونکہ طالبان بھی بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ وہ بھی سابقہ دور کے دلال حکمرانوں کی طرح مستقل طور پر نہیں رہ سکتے، اس کی وجوہات محض طالبان کے موضوعی مسائل نہیں، بلکہ مختلف سوالات پر طالبان مخالف عوامی مزاحمت کبھی بھی اُٹھ سکتی ہے۔ جوکہ طالبان کے اندرونی تضادات سے بڑھ کر ان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان کے مظلوم عوام کے مقدر میں یہی صورتحال لکھی ہے، جس کا وہ پچھلے کم و بیش پانچ دہائیوں سے سامنا کر رہے ہیں؟ کیا اس موجودہ نظام کے اندر اتنی سکت ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کو اس جبر، دہشت، وحشت، استحصال اور ظلم سے نجات دلا سکے؟ ان دونوں سوالات کے جوابات نفی میں ہیں۔ کیونکہ اگر افغان عوام کے مقدر میں یہ ذلت اور رسوائی لکھی جاچکی ہے تو پھر انقلابِ ثور جس نے افغان سماج کی پسماندہ بنیادوں کو جدید تقاضوں سے ہم اہنگ کرنے کی کوشش کی وہ برپا نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسری بات افغان عوام کی بدحالی، ذلت و رسوائی، جبر اور بربریت کی اصل وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس کو اکھاڑے بغیر افغان عوام کبھی بھی سکھ کا سانس نہیں لے سکتی۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ سوشلزم کا نفاذ کیے بغیر اس نظام کے اندر مظلوم افغان عوام ہمیشہ ایسے ہی پِستے رہیں گے۔
واحد راہِ نجات۔۔۔ سوشلسٹ انقلاب!