Post Tagged with: "Student Movement"

مشعل خان کا بہیمانہ قتل: جینا ہے تو لڑنا ہو گا!

مشعل خان کا بہیمانہ قتل: جینا ہے تو لڑنا ہو گا!

May 20, 2017 at 11:16 AM

کہنے کو تو یہ سیکیورٹی گارڈز، پولیس، فوج اور رینجرز کو تعلیمی اداروں کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے موجود ہیں مگر مشعل کے قتل نے ان کی اصلیت کا پردہ چاک کردیا ہے اور ان اداروں کا حقیقی کردار سامنے لے آیا ہے۔ ان قانونی غنڈوں کامقصد ہی طلبہ پر جبر کرنا، فیسوں میں اضافے یادیگر مسائل کے خلاف آواز اٹھانے والے کو خاموش کروا دینا ہے۔

مشعل خان

کیا مشال خان کی شہادت رائیگاں چلی گئی؟

April 20, 2017 at 9:32 PM

مشال خان کی شہادت نے کمزور اور متذبذب طلبا تحریک کو ایک نئی معیاری جست لگائی ہے۔ اس نے دکھایا ہے کہ فیسوں میں اضافے سے لے کر دیگر مسائل کے حل کے لیے جرات مندی اور ثابت قدمی کے ساتھ آج بھی لڑا جا سکتا ہے

مشعل خان کا ریاستی پشت پناہی میں بہیمانہ قتل؛ مذہب کی سیاست

مشعل خان کا ریاستی پشت پناہی میں بہیمانہ قتل؛ مذہب کی سیاست

April 19, 2017 at 1:23 PM

حکمران طبقے کے جبر کے خلاف جب بھی کوئی آواز بلند ہوتی ہے ‘ کوئی تحریک ابھرتی ہے اور طلبہ، مزدوروں یا کسانوں کا کوئی بھی حصہ احتجاج کے لیے باہر نکلتا ہے تو وحشی ملاؤں کو ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے

جمعیت گردی

جمعیت گردی

April 14, 2017 at 7:24 PM

آج اگر طلبہ کے اصل مسائل پر نظر ڈالی جائے تو وہ فیسوں میں مسلسل اضافہ، تعلیمی اداروں کی شدید کمی، ہاسٹلوں اور ٹرانسپورٹ کی شدید قلت اور تعلیم کا گرتا ہوا معیار ہے لیکن جمعیت ان مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے سرگرم ہے

طلبہ تحریک میں مارکسزم اور فیمینزم کے رجحان

طلبہ تحریک میں مارکسزم اور فیمینزم کے رجحان

January 24, 2017 at 12:13 PM

سرمایہ داری کے تحت یہ صنفی برابری نہ صرف ناممکن ہے بلکہ ایک یوٹپیائی نظریے کے طور پر بھی متاثر کن نہیں ہے۔ آزاد خیال فیمینسٹ کمپنیوں کے بورڈ رومز میں زیادہ خواتین کی نمائندگی چاہتے ہیں جبکہ مارکسسٹ خود بورڈ رومز کا خاتمہ چاہتے ہیں

جنوبی افریقہ: مفت تعلیم کے لیے جدوجہد اور طلبہ تحریک کے اسباق

جنوبی افریقہ: مفت تعلیم کے لیے جدوجہد اور طلبہ تحریک کے اسباق

December 23, 2016 at 12:12 PM

نوجوانوں کی یہ جدوجہد سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی عکاسی کرتی ہے جو عوام کو کوئی مستقبل نہیں دے سکتا۔ یہ تلخ جدوجہد جنوبی افریقہ کے سماج کے لیے ایک اہم موڑ ہے جس نے پچھلی ایک دہائی میں طبقاتی تضادات کو شدت سے ابھرتے دیکھا ہے۔ طلبہ اور دانشور سماجی کیفیت کا انتہائی حساس بیرومیٹر ہوتے ہیں اور انکی موجودہ جدوجہد آنے والے کل کی ایک پیش بندی ہے۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ حالات کی وجہ سے سماج میں شدید غصہ اور مایوسی پائی جاتی ہے