|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، پختونخوا|
مشال پیس موومنٹ کی جانب سے 13 مئی بروز اتوار کو زیدہ، صوابی میں مشال خان شہید کی پہلی برسی منائی گئی جس میں ملک بھر سے بڑی تعداد میں ترقی پسند حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد،محنت کشوں، طلبہ اور نوجوانوں نے شرکت کی۔ مشال خان کی شہادت کو گزرے ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن جس سفاکی سے اس کو قتل کیا گیا اس کے قاتلوں کے خلاف نفرت آج بھی اس ملک کے نوجوانوں اور درد دل رکھنے والے افراد کے دلوں میں موجود ہے۔ یہ بربریت، ایک ایسے ادارے میں رونما ہوئی، جسے نزدیک ماضی تک برداشت اور آزاد خیالی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن ذاتی منافعوں پر مبنی نظام کے یہ حکمران اور ریاست اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی اس نظام اور اس کے علمبردار ’تعلیم یافتہ‘ چوروں اور لٹیروں سے اپنا حق مانگے تو اس کو ایک ایسے سوچے سمجھے طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے کہ اس سماج کو ایک رجعتی سماج بناکر پیش کیا جاسکے جہاں حق اور حقوق کے لئے کوئی آواز بلند نہیں کی جاسکتی۔ مگر ماضی میں زندہ ان حکمرانوں کو منہ کی کھانی پڑی اور ہر گھر اور گلی میں ایک مشال خان پیدا ہوگیا۔ مشال خان شہید کی پہلی برسی اس حقیقت کی گواہ ہے کہ اس قصے کا بھوت ابھی بھی اس نظام کے حواریوں کے ذہنوں پر منڈلا رہا ہے اور انصاف ناگزیر ہوچکا ہے۔
مشال کے والد اقبال خان نے مشال خان کی پہلی برسی کے موقع پر جلسے کا اہتمام کیا تھا جس میں مختلف مذاہب اور قومیتوں کے لوگ موجود تھے۔ رواداری تحریک سے سلیم سیمسن نے عیسائی برادری کی جانب سے اس قتل کی مذمت کی اور دوبارہ سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر عاصم سجاد اختر نے ریاست اور انتظامیہ کے کردار کو بے نقاب کیا اور سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی۔ مشال خان شہید کے استاد، ضیااللہ ہمدرد کی تقریر غور طلب اسلئے بھی تھی کیونکہ وہ مشال خان شہد کے حوالے سے ایک کتاب تحریر کر چکے ہیں جو جلد ہی اشاعت کے بعد پڑھنے کو ملے گا۔ انھوں نے مشال کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں پر تفصیل سے بات کی اور کہا کہ مشال خان شہید ایک کتاب پڑھنے والا طالب علم اور یونیورسٹی میں ایک زیرک طالبعلم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ غریب طالبعلموں اور یونیورسٹی میں کام کرنے والے مزدوروں کا ہمدرد تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایک سال تک میں کتاب لکھنے کی وجہ سے خاموش تھا اور اب یہ فریضہ ختم کرنے کے بعد ان حقائق سے پردہ اٹھاؤں گا۔ انھوں نے یونیورسٹی کے کرپٹ پروفیسروں کا پردہ چاک کیا۔
پروگریسو یوتھ الائنس کا وفد بھی اس جلسے میں شریک تھا اور اس موقع پر مارکسی لٹریچر پر مبنی ایک بک سٹال بھی لگایا گیا۔
پی وائی اے کی جانب سے کامریڈ ماہ بلوص اسد نے اپنے خطاب میں کہا کہ مشال خان یونیورسٹی میں طلبہ کو درپیش مسائل بالخصوص فیسوں میں اضافے اور انتظامیہ کی کرپشن کے خلاف عملی جدوجہد میں شریک تھا۔ اسی لیے جہاں ایک طرف انتظامیہ کے لیے خطرہ تھا وہیں نام نہاد طلبہ تنظیموں کو بھی ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ یہی اس کا قصور تھا جس کی پاداش میں منصوبہ بندی سے رجعتی غنڈوں کی مدد سے اس کا بہیمانہ قتل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر آج طلبہ یونینز موجود ہوتیں تو مشال خان جیسے بہادر طالبعلم جو اکیلے ہی ہر مشکل سے ٹکرا جاتے ہیں تو اس بہیمانہ طریقے سے مشال خان کا قتل اتنا آسان نہ ہوتا۔ اس لیے ایسے واقعات کی روک تھام اور طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے طلبہ یونین کی بحالی ضروری ہے۔ ہم مشال خان کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد سمجھتے ہیں اور مشال خان سوشلزم کے جن نظریات سے متاثر تھا انہیں نظریات کی بنیاد پر ایک سوشلسٹ انقلاب تک جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
نیشنل پارٹی، عوامی ورکرز پارٹی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور دیگر نے بھی شرکت کی۔ اے این پی کی قیادت شاید سب سے کم موجود تھی۔
مشال خان شہید کے والد اقبال خان نے پی وائی اے کے سٹال کا دورہ بھی کیا اور ساتھیوں سے ملاقات کی۔ مشال خان شہید کی والدہ، بھائی اور بہنیں بھی موجود تھیں۔ اقبال خان کی نم آنکھیں ابھی تک اس سرمایہ دارانہ بوسیدہ انصاف کے کردار پر سوالیہ نشان ہے جس کی اساس ہی اس نظام کو بچانا ہے۔