|رپورٹ: پی وائے اے، ڈیرہ غازی خان|
مورخہ 7 نومبر 2019ء کو پروگریسو یوتھ الائنس کی طرف سے ”ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتیوں اور طالب علموں کے بڑھتے ہوئے مسائل کا حل“ کے عنوان سے ایک سٹڈی سرکل منعقد کیا گیا۔ سٹڈی سرکل کو شبیر بزدار نے چئیر کیا۔ انہوں نے سٹڈی سرکل کے شرکاء کو اس میٹنگ کے مقاصد سے آگاہ کیا اور پروگریسو یوتھ الائنس کا تعارف پیش کیا۔ سٹڈی سرکل میں گفتگو کا آغاز کرنے کے لیے راول اسد کو دعوت دی گئی۔
راول نے طلبہ کو درپیش مسائل سے گفتگو کا آغاز کیا اور بتایا کہ ایچ ای سی کے بجٹ میں حالیہ کٹوتی محنت کشوں اور درمیانے طبقے کے طالب علموں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ حکومت اس اقدام سے طالب علموں کی اکثریت کے لیے تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کرنے کی طرف جا رہی ہے۔ ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتی کر کے جامعات کو تمام اخراجات طالب علموں کی فیسوں میں اضافہ کر کے پورے کرنے کا کہا جا رہا ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ آنے والے عرصے میں فیسوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حال ہی میں یو ای ٹی، آئی یو بی، اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی سمیت بہت ساری جامعات میں فیسوں میں سو فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد راول نے ہاسٹلوں کے اخراجات میں اضافے، ہاسٹلوں میں ناکافی سہولیات، انتظامیہ کے بڑھتے جبر اور طالبات کی جنسی حراسگی پر تفصیل سے بات رکھی۔ اس کے بعد راول نے طالب علموں کی ماضی میں کی جانے والی انقلابی سیاسی جدوجہد اور طالب علم سیاست کی روایت پر گفتگو کی اور آج کے عہد میں طلبہ سیاست کی ناگزیر ضرورت کو بیان کیا۔ راول نے سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری اور دنیا بھر میں اس نظام کے بحران کا بوجھ عام محنت کش عوام، مزدوروں، کسانوں اور طالب علموں پر ڈالنے پر تفصیل سے بات رکھی۔ راول کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں عالمی سرمایہ داری کے بحران کا بوجھ غریب عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ صحت، علاج اور تعلیم کی سہولیات چھینی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے غریب عوام کا معاشی قتل عام کرنے جا رہی ہے۔ ایسے میں طالب علموں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے منظم ہو کر جدوجہد کرنی پڑے گی۔
راول کے بعد ذوالفقار علی نے تعلیمی اداروں میں بڑھتی حراسگی پر بات کی۔ ذوالفقار علی کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں صرف طالبات کی حراسگی ہی نہیں ہوتی بلکہ طلبہ بھی حراسگی کا شکار ہیں اور دباؤ کے مختلف ہتھکنڈوں سے طلبہ کو بھی بلیک میل کیا جاتا ہے اور اپنا غلام بنا کے رکھا جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں جنسی حراسگی اپنی انتہاؤں کو پہنچی ہوئی ہے اور آج لوگ اپنی بچیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے خوف کھاتے ہیں۔ آج طلباء اور طالبات کے پاس ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں وہ اپنے مسائل زیرِ بحث لا سکیں اور ان کو حل کرانے کے لیے لڑ سکیں۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اگر تاجروں، وکلاء اور پروفیسرز اپنی یونینز بنا سکتے ہیں تو طالب علم اپنے حقوق حاصل کرنے اور منظم ہونے کے لیے یونینز کیوں نہیں بنا سکتے۔
اس کے بعد تصور برمانی، محمد سبطین اور شعیب جاوید نے بات رکھی۔ انہوں نے سٹڈی سرکل کے انعقاد پر پی وائے اے کو سراہا۔
اس کے بعد آصف لاشاری کا کہنا تھا کہا کہ ہم ایک طبقاتی نظام میں رہتے ہیں اور جن مسائل کو ہم نے زیرِ بحث لایا ہے یہ سب محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مسائل ہیں۔ سرمایہ دار و جاگیردار طبقے کا ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس ملک کا حکمران طبقہ جہاں اس ملک کے وسائل پر قابض ہے، جہاں وہ محنت کشوں کے بچوں سے تعلیم و علاج کے دروازے بند کر رہا ہے، وہیں پر وہ اس ملک کی سیاست پر بھی حاوی ہے اور اس نظام میں محنت کشوں کو صرف ووٹ دینے کا حق حاصل ہے لینے کا نہیں۔ غریب طبقے کے طالب علموں اور نوجوانوں کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور حکمران طبقے کی غلیظ سیاست کی مثالیں دے کر انہیں سیاست سے متنفر کیا جاتا ہے۔ جان بوجھ کر طالب علموں کی حقیقی سیاست کی تاریخ سے انہیں لاعلم رکھا جاتا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ طالب علم ایک بار پھر اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے سرگرم ہوں اور نظریاتی بنیادوں پر خود کو منظم کریں۔ ہم تمام نوجوانوں کو اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے پی وائے اے کا حصہ بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ آخر میں راول اسد نے سوالات کی روشنی میں بحث کا اختتام کیا۔