|رپورٹ: وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن|
وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن حیدرآباد نے 4 اگست 2019ء کو خانہ بدوش رائٹرز کیفے کے عین سامنے موجود پارک میں ”عورت کی آزادی کی جدوجہد“ کے عنوان پر سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔ سرکل میں حیدرآباد اور ٹنڈوجام کے 10 کے قریب طلباء نے شرکت کی، جس میں وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن حیدرآباد کے ساتھی علی عیسیٰ نے اس عنوان پر تفصیلی بحث کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جس موضوع پر وہ بات کرنے جا رہے ہیں وہ انتہائی پیچیدہ موضوع ہے جس کے بارے میں ہزارہا مغالطے گھڑے گئے ہیں۔ہمارے ہاں ابھی تک صرف علامات پر بات کی گئی ہے جب کہ اصل مقصد مسائل کے اسباب اور حل ہے۔ علی عیسیٰ نے عورت کے استحصال کیآغاز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عورت استحصال کی زد میں تب آئی جب نجی ملکیت اور اس کے دفاع کے لیے طبقاتی سماج (حکمران اور محنت کش طبقہ) وجود میں آیا۔ یہ قطعی اور بالکل غلط بات ہے کہ یہ سماج ویسے کا ویسا ہی رہا ہے۔ اس سے قبل ابتدائی اشتراکی سماج میں عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ وہ ایک ساتھ محنت کرتے، ساتھ رہتے اور ایک ساتھ سماجی ترقی میں ایک دوسرے کے مددگار رہتے۔
کامریڈ علی نے لبرل موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عورت کو کوئی چیز یا مردوں کی جنسی تسکین کے لیے کموڈیٹی بناکر پیش کرنا یا محض جینز پہننا آزادی نہیں بلکہ اصل آزادی معاشی آزادی ہے، جو صرف اس وقت ممکن ہے جب عورت خاندان کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر سماج کی ترقی میں مرد کے بازو سے بازو ملا کر میدان عمل میں آئے۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ نظام میں ممکن ہے، جس میں سرکار کی جانب سے اجتماعی نرسری اور اجتماعی باورچی خانہ وجود میں آئیں گ، جس کی مثال سوویت یونین ہے جہاں عورت خاندانی ذمہ داری سے آزاد تھی اور معاشرے کی ترقی کے لیے سرگرم تھی۔ یہ سرگرمی آرٹ، سائنس اور دوسرے علوم کی ترقی کی وجہ بنی۔
فیمنزم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسائل ’عمومی طور پر‘ صرف محنت کش طبقے کی خواتین کو درپیش ہیں، حکمران طبقے کی خواتین کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا (بحیثیت مجموعی)۔ کیونکہ مرد، عورت کا دشمن نہیں بلکہ سرمایہ دار طبقہ محنت کش طبقے کا دشمن ہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد۔ ان مسائل کا حل صرف غیر طبقاتی نظام یعنی سوشلزم ہے۔ عورت کا استحصال مرد نہیں بلکہ یہ نظام کررہا ہے۔ سرمایہ دار نظام کی بقاء اس میں ہے کہ وہ عورت اور خاص کر محنت کش عورت کا استحصال کریں۔ یعنی استحصال اس نظام کی بنیاد ہے جس کے بغیر یہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہی عورت کی آزادی کا ضامن ہے، اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ایک انقلابی سوشلزم ہی انسانی سماج کی ترقی کا واحد راستہ ہے۔
اس کے بعد کامریڈ عبدالحئیی نے عورت کی آزادی میں طبقاتی سماج کے خاتمے کی ضرورت پت بات کی۔ ان کے بعد بات ٹنڈوجام سے تعلق رکھنے والے ساتھی کامریڈ فیاض نے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سماج میں ہر گلی چوک پر محنت کش عورت استحصال کی زد میں ہے جس سے نجات عورت تب ہی حاصل کر سکتی ہے جب وہ مرد محنت کشوں کے ساتھ مل کر سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرے گی۔
اس کے بعد کامریڈ مصدق سیال نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ایک طرف سرمایہ دار نظام عورت کو جنس بنا کر فروخت کرتا ہے تو دوسری طرف مذہب کا سہارا لے کر حکمران طبقے کی جانب سے (پسماندہ سماجوں میں) اسے چار دیواری کے تقدس کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یعنی اس نظام میں ہمیشہ عورتوں کو سنہرے خواب دکھا کر ان کے خوابوں کو قتل کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد کامریڈ شیراز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ عورت کی آزادی تب ہی ممکن ہے جب اس کی انسان ہونے والی حیثیت بحال کی جائے۔ ان کو بھیڑ بکریاں نہ سمجھا جائے۔
کامریڈ سرمد نے بحث کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا کہ موجودہ نظام میں عورت چار دیواری کے تقدس کے نام پر استحصال کی چاردیوادی میں قید ہے۔ اگرکوئی بہادری کا مظاہرہ کر کے اس چاردیواری کو توڑ کر باہر نکلے تو وہاں بھی یہ استحصالی نظام نہیں رکتا فیکٹریوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور نام نہاد انسانی حقوق کے اداروں وغیرہ میں عورت کا شدید ترین معاشی اور جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس پدر سری سماج میں عورت تو عورت، مرد بھی قید ہے جو صرف اس نظام کے خاتمے سے ختم ہوگا۔
مزید بحث کو سمیٹتے ہوئے کامریڈ علی نے کہا کہ جس سماج میں انسان بذات خود خریدا اور بیچا جاتا ہو (اسکی محنت) وہاں انسانی حقوق (خواتین، مظلوم قومیتوں وغیرہ) کی بات کرنا اور امید لگانا بے وقوفی ہے۔ اس لیے لڑاکا سوچ رکھنے والے نوجوان اور محنت کش انقلابی نظریے سے لیس ہو کر اس ظالمانہ نظام کو اکھاڑ کر استحصال سے پاک سماج کا بنیاد رکھیں جو صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے۔