کوئٹہ: افغان ثور انقلاب کی یاد میں سٹڈی سرکل کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|

پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان نے افغان ثور انقلاب کی 41 ویں سالگرہ کی یاد میں 27 اپریل 2019ء کو کوئٹہ میٹرو پولیٹن کے مرکزی ہال میں شاندار سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا۔سٹڈی سرکل میں بلوچستان یونیورسٹی، لاء کالج، ایگریکلچر،بیوٹمزاور دوسرے تعلیمی اداروں سے 35 کے قریب نوجوانوں اور طلباء نے شرکت کی۔

سٹڈی سرکل میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض حضرت عمر نے نبھائے۔ سٹیج سیکرٹری نے افغان ثور انقلاب پر مفصل بات کرنے کیلئے رزاق غورزنگ کو دعوت دی۔ رزاق غورزنگ نے ثور انقلاب پر مفصل بات کرتے ہوئے کہا کہ آج جس وقت اور حالات کے اندر ہم ثور انقلاب کی سالگرہ منانے جارہے ہیں۔ یہ حالات انقلابی سیاست کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جن میں انقلابات، ردِانقلابات اور خانہ جنگیاں سیاسی معمول بن چکی ہیں۔ ایسے میں اس انقلاب کی یاد اور اس پر بحث کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اسکو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر یاد کرکے محض تاریخ سے علمی طور پر آگاہی حاصل کریں بلکہ محنت کش و محکوم طبقات کی ان تاریخی سرکشیوں اور بغاوتوں سے سنجیدہ اسباق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کریں۔

آج کل حکمران طبقات کے دانشوروں میں یہ بات فیشن بن چکی ہے کہ تاریخ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تاریخ کے کوئی معروضی قوانین نہیں ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخ ہمارے لئے محنت کش و محکوم طبقات کی جدوجہد کا وہ تاریخی تجربات اور نچوڑ ہے جوکہ مستقبل کی جدوجہد کے حوالے سے تاریخی ریفرنس ہے جس پر ٹھوس معلومات اور عبور حاصل کئے بغیر مستقبل کی جدوجہد ناممکن ہے۔

افغان ثور انقلاب اس خطے میں سامراج، سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف جاری جدوجہد میں افغانستان کے مظلوم عوام کی کامیاب سرکشی تھی جس سے اس خطے کی مظلوم عوام میں امید کی نئی کرن پیدا ہوئی تھی۔ افغان ثور انقلاب نے افغانستان میں جاگیرداری و سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے انتہائی ریڈیکل اصلاحات کیں جس میں افغانستان کو پسماندگی سے نکال کر سماجی ترقی کا نیا سفر شروع کیا گیا۔ لاکھوں کسانوں کے درمیان مفت زمینیں تقسیم کی گئیں۔ عورتوں کو غلامی سے نکال کر مردوں کے برابر حقوق دیے گئے۔ تعلیم کو ہر سطح پر مفت کیاگیا۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اصلاحات کئے گئے۔

اس انقلابی عمل کا سامراج اور رجعتی طبقات کے ساتھ ٹکراؤ ناگریز تھا۔ عالمی سامراج نے سعودی عرب اور پاکستان کے رجعتی اور ظالم آمر ضیاء الباطل کے ساتھ مل کر تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن اس انقلاب کے خلاف شروع کیا۔ پیٹرو ڈالر جہاد کے ذریعے پورے خطے کو آگ اور خون میں دھکیلا گیا جس سے یہ خطہ آج بھی جل رہا ہے۔

دوسری طرف سویت یونین کی سٹالنسٹ بیوروکریسی نے فوجی مداخلت کرتے ہوئے لین انزم کے بنیادی اصول انٹرنیشنلزم اور مظلوم قوموں کی حقِ خودارادیت سے انحراف کرتے ہوئے فوجی احکامات کے ذریعے سوشلزم نافذ کرنے کی کوشش کی جسکا حتمی مقدر سٹالنزم کے گہرے معاشی بحران میں ناکامی تھی۔ اسکے علاوہ خلق پارٹی کی داخلی محاذ آرائی نے بھی صورتحال کو بگاڑ دیا جس سے یہ طاقتور سبق ملتا ھے کہ مظبوط ڈھانچوں پر مشتمل اور انقلابی نظریات سے مسلح کیڈر پر مشتمل جمہوری مرکزیت کی حامل پارٹی سوشلسٹ نظام کی تعمیر اور ردِانقلاب کے خلاف جدوجہد میں کتنی اہمیت کی حامل ہے۔

رزاق غورزنگ کے علاوہ پروگریسو یوتھ الائنس کے صوبائی صدر خالد مندوخیل، پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی جنرل سیکرٹری ولی خان اور لاء کالج سے میوند نے بحث میں حصہ لیا اور ثور انقلاب کے مختلف پہلووئں پر روشنی ڈالی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.