|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، روالپنڈی-اسلام آباد|
27 اکتوبر 2021ء بروز بدھ پروگریسو یوتھ الائنس راولپنڈی، اسلام آباد کے زیر اہتمام ایریڈ یونیورسٹی میں سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا جس میں ایریڈ یونیورسٹی سے تقریباً 15 طلبہ نے اور نمل یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے شرکت کی۔ سٹڈی سرکل کا عنوان ”طلبہ یونین کی بحالی“ تھا۔ سٹڈی سرکل تقریباً 1 بجے شروع ہوا جس کا اختتام ڈھائی بجے ہوا۔ اس میں چیئر کے فرائض پی وائی اے کے کارکن عثمان خان سیال نے سرانجام دیے جبکہ اس موضوع پر حارث چوہان اور سنگر خان نے تفصیلی بات رکھی۔
حارث چوہان نے شرکاء سے بات کرتے ہوئے طلبہ یونین کے تاریخی پسِ منظر، اہمیت اور اس کے کردار پر بات رکھی۔ حارث نے نوجوان نسل کے انسانی تاریخ میں انقلابی کردار پر سیر حاصل گفتگو کی اور سیاسی میدان میں طلبہ سیاست کی اہمیت کو بیان کیا۔ موضوع پر بات کرتے ہوئے حارث چوہان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان میں قیادت کا فقدان اپنی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور موجودہ سیاست میں کوئی بھی عوامی نمائندہ نظر نہیں آتا۔ سارے سرمایہ دار، جاگیردار اور اشرافیہ کے لوگ سیاست میں موجود ہیں جنہوں نے سیاست کو ایک غلیظ چیز بنا کر رکھ دیا ہے جس کی بڑی وجہ طلبہ سیاست پر پابندیاں ہیں۔ پوری دنیا میں طلبہ یونینز کے الیکشن ہوتے ہیں جس کے ذریعے طلبہ کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں جو طلبہ کے مسائل حل کروانے اور انہیں بہتر سے بہتر ماحول مہیا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں اور یونینز سے سیکھ کر عملی و ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ کسی طبقے کا نمائندہ حقیقی نمائند تب ہی ہو سکتا ہے جب وہ اس طبقے سے ہو۔ مزدوروں کا نمائندہ مزدوروں کے لیے بہتر کام کرسکتا ہے، سرمایہ داروں کا نمائندہ سرمایہ داروں کے لیے۔ اسی طرح طلبہ کا نمائندہ طلبہ کے لیے بہتر فرائض سر انجام دے سکتا ہے مگر پاکستان میں بدقسمتی سے طلبہ اپنا نمائندہ ہی نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی منتخب کرسکتے ہیں۔
اس صورتحال کے باعث ہمیں طلبہ میں بیگانگی صاف نظر آتی ہے جو اس نظام کی دین ہے۔ اکنامکس کے طالب علم کو اکنامکس کا شوق نہیں، سیاسیات کے طالب علم کو سیاست کا علم نہیں اور انجینیئرنگ کا طالب علم ڈگری کے حصول کے لیے امتحان پاس کررہا ہے جوکہ ایک انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ جب تک طلبہ کے نمائندے طلبہ سے منتخب نہیں ہوں گے، طلبہ کے مسائل دن بدن بڑھتے رہیں گے اور ملک کا مستقبل تاریک ہوتا جائے گا۔ موروثی سیاست کے وجود کے پیچھے بھی طلبہ یونینز پر پابندیوں کا ایک بڑا ہاتھ ہے۔
اس کے بعد سنگر خان نے طلبہ یونین کے ڈھانچے، کام کے طریقہ کار اور اس کی دوبارہ بحالی کے لائحہ عمل پر تفصیلی بات رکھی۔ سنگر کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندیاں عائد کرنے سے پہلے اور بعد کی تاریخ دیکھی جائے تو ہمیں واضح فرق نظر آتا ہے۔ پابندیوں سے پہلے طلبہ میں لسانی، علاقائی یا نسلی بنیادوں پر نہ ہی اتنے گروپ موجود تھے اور نہ ہی اتنی لڑائیاں ہوتیں تھیں اور نہ ہی اتنی تقسیم موجود تھی جو ہمیں پابندیوں کے بعد نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں طلبہ یونینز کا کردار ہمارے سامنے ہے۔ اگر یہ اتنی ہی بری ہوتیں تو ترقی یافتہ ممالک میں یہ بین ہوتیں اور ہمارے سیاستدانوں اور جاگرداروں کے بچے جو وہاں پڑھنے جاتے ہیں ان میں حصہ نہ لیتے اور وہاں پر یونینز کی وجہ سے قتل و غارت ہوتی۔ ہمارے ہاں چند لسانی اور علاقائی گروہوں کو (جن کو سرمایہ دار اور سیاستدان خود سپانسر کرتے ہیں اور جو طلبہ کے حقیقی نمائندے کسی صورت میں نہیں ہو سکتے) بنیاد بنا کر طلبہ یونین پر پابندیوں کو جائز قرار دیا جاتا ہے جو کہ حقیقت کے برعکس ہے۔ طلبہ یونین میں طلبہ کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں جبکہ دوسری تنظیموں میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمیں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے کوششوں کو تیز کرنا چاہیے اور طلبہ کو طبقاتی بنیادوں پر اکٹھا کرنا چاہیے۔ پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے میں فی الفور الیکشن ہونے چاہیئں تاکہ طلبہ کے حقیقی نمائندے سامنے آئیں جو مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہوں۔
دیگر طلبہ میں سے ریحان اصغر، عظیم سرور، رانا انس اور احمد سعید نے بحث میں بھرپور حصہ لیا۔ اس کے بعد شرکائکے ساتھ پروگریسو یوتھ الائنس کے حوالے سے بات ہوئی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں موجود طلبہ تنظیموں میں ہماری ہی ایک تنظیم طلبہ کے مسائل کے لیے حقیقی جدوجہد کر رہی ہے جس میں طلبہ کو کسی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ ایک طبقہ بن کر جدوجہد کرنے کیلیے تیار کیا جاتا ہے۔
آخر میں شرکائکی جانب سے سوالات کیے گئے جن کا مدلل انداز میں جواب دیا گیا۔ کچھ سوال شرکائکی جانب سے سوشلزم کے حوالے سے کیے گئے جن کو عنوان کی طوالت اور وقت کی قلت کی وجہ سے اگلے سٹڈی سرکل پر چھوڑا گیا اور مشاورت سے اگلے سٹڈی سرکل کا عنوان “سوشلزم کیا ہے؟” رکھا گیا۔