|رپورٹ: وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن|
5 اکتوبر 2019ء کو ”مفت تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں“ اور”طلبہ یونین بحال کرو“ کے نعروں کے گرد وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن (پروگریسوو یوتھ الائنس) کے زیر اہتمام سندھ یونیورسٹی سے حیدرآباد پریس کلب تک 22 کلومیٹر پیدل مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں سندھ کے تعلیمی اداروں کے علاوہ دیگر صوبوں کے طلبہ نمائندگان نے بھی شرکت کی۔
اس مارچ کی تیاری کے لیے گزشتہ ایک مہینہ وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان نے سندھ یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں مارچ کی تیاری کے لیے بھرپور کمپئین کی اور طلبہ کی بڑی تعداد تک مفت تعلیم کے حق اور طلبہ یونین کی اہمیت اور ضرورت کا پیغام پہنچایا، جس کا تمام طلبہ نے خیرمقدم کیا اور مارچ میں شرکت کی یقین دہانی کرائی۔ اس ساری کمپئین کا مرکز سندھ یونیورسٹی جامشورو تھا۔ جہاں مارچ کے لیے بھرپور ماحول تیار کیا گیا اور ہاسٹل سے لے کر کیفے ٹیریا تک پوسٹرز، لیف لیٹ اور دیگر ذرائع کے ذریعے طلبہ کو مارچ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ جس سے یونیورسٹی اور ضلعی انتظامیہ شدید خوفزدہ ہوئی اور انہوں نے اپنی سرپرستی میں یوتھ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام طلبہ کے حقیقی نمائندہ مارچ سے پہلے ایک سرکاری مارچ کی کال دے کر طلبہ کے غم و غصے کو ذائل کرنے کی ایک ناکام کوشش کی، جس میں انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کو مارچ میں شرکت کروانے کے لیے بسوں کی سہولت فراہم کرنے کے باوجود بھی شرکت نا کروائی جاسکی۔ جب اس سے کام نہ بنا تو انتظامیہ نے اپنے روایتی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی میں موجود اپنے سہولت کاروں کے ذریعے کمپئین میں مصروف وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان کو ہراساں کروانا شروع کردیا، جس میں واضح طور پر دھمکیاں دی گئیں کہ ہمارے پیچھے فلاں فلاں ایجنسیوں کی سپورٹ ہے اور آپ یہ کمپئین بند کردیں۔ اگر آپ اس کو بند نہیں کریں گے تو آپ کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس کے باوجود جب کمپئین نہ رکی تو آل سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ذریعے وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم کارکن کامریڈ سلامت پر وحشیانہ حملہ کروایا گیا تاکہ خوف و ہراس کی فضا قائم کرتے ہوئے منعقدہ مارچ میں شرکت سے طلبہ کو روکا جاسکے۔ لیکن اس حملے کے بعد طلبہ نے پہلے سے زیادہ پرجوش انداز میں مارچ میں شرکت کی یقین دہانی کروانا شروع کر دی، جس کے بعد انتظامیہ نے مارچ کے حوالے سے مزید خوف بڑھانا شروع کر دیا۔ ا س کا اظہار 5 اکتوبر کو ہوا جب مارچ کے منتظمین صبح یونیورسٹی ہاسٹل سے مارچ کا آغاز کرنے کیلئے پہنچے تو یونیورسٹی کو ایک درسگاہ سے فوجی کیمپ میں تبدیل کیا جا چکا تھا جہاں ہر جانب پولیس، رینجرز اور انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کے ساتھ تزلیل آمیز اور آمرانہ رویہ اپنایا جا رہا تھا۔ اندر جانے اور باہر نکلنے پر بندش اور تلاشی کے نام پر طلبہ کو دھمکایا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہاسٹل اور مین گیٹس پر رینجرز اور پولیس کی گاڑیاں کھڑی کر کے طلبہ کو روکا گیا۔
اس سب کے باوجود طالب علموں کی ایک بڑی تعداد نے بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے ان ظالمانہ اور آمرانہ بندشوں کے آگے جھکنے سے صاف انکار کردیا اور ہاسٹل سے ریلی کی صورت میں ایک شاندار قافلہ نکلا، جو یونیورسٹی انتظامیہ کو ہضم نہ ہوا اور رینجرز کے ذریعے طلبہ کو ہراساں کیا گیا، جس میں رینجرز نے تصویریں نکالنا اور گاڑیاں ریلی کے آگے پیچھے دوڑانے کا عمل پریس کلب تک جاری رکھا۔ اس تمام تر دباؤ کے باوجود غیور طلبہ نے ”مفت تعلیم ہمارا حق ہے“، ”طلبہ یونین بحال کرو“ اور ”زندہ ہیں طلبہ، زندہ ہیں“ کے نعروں سے انتظامیہ کے بزدلانہ عمل کو للکار تے ہوئے کارواں جاری رکھا۔ سندھ یونیورسٹی سے نکلے ہوئے انقلابی نوجوانوں کے اس قافلے کو راستے میں مختلف جگہ پر محنت کش عوام نے خوش آمدید کرتے ہوئے پھولوں کے ہار پہنائے اور پرجوش استقبال کیا۔ یہ قافلہ جذبوں سے سرشار نوجوان طلبہ کے پرجوش نعروں سے محنت کشوں کی بستیوں سے گزرتے ہوئے پریس کلب پر پہنچا جہاں اس مارچ نے جلسے کی صورت اختیار کر لی۔
طلبہ کے جشن سے بھرپور اس جلسے سے پہلا خطاب وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر کامریڈ سرمد سیال نے کیا۔ سرمد سیال نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں موجود درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ، آئے دن بیکار ٹرانسپورٹ کے سبب کوئی نہ کوئی شائستہ یا دانیال جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ تمام تعلیمی اداروں میں صاف پانی اور ہاسٹلز سمیت ہر بنیادی سہولت کی عدم موجودگی ہے۔ کبھی ہاسٹلوں میں نائلہ رند کی لاش تو کبھی نمرتا کا واقعہ۔ یہ تمام واقعات طلبہ یونین کی ضرورت کو مضبوط سے مضبوط بناتے جارہے ہیں۔ لہٰذا طلبہ یونین کی ضرورت آج بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور یہ خیرات سے نہیں بلکہ ایک پرزور مزاحمت کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ میں تمام طلبہ سے اپیل کرتا ہوں کہ مفت تعلیم اور طلبہ یونین کے اجتماعی مانگوں کیلئے ایک اجتماعی مزاحمت کا آغاز کریں۔ جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن، سندھ شاگرد سبھا اور سندھ سٹوڈنس کونسل کے نمائندگان نے اپنی تقاریر میں مارچ کی حمایت اور خیر مقدم کیا۔
سرمد سیال کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے صوبائی صدر خالد مندوخیل نے جلسے سے خطاب کیا۔انہوں نے پاکستان کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو درپیش مسائل اور موجودہ معاشی و سیاسی صورت حال پر بات کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم پر مبنی یہ سرمایہ دارانہ نظام آج اپنی مدت پوری کر چکا ہے اور اب دن بدن انسانوں کی زندگیوں کو جہنم بنانے کا سبب بن رہا ہے۔ آج اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی اس خطے اور پوری دنیا کے انسانوں کو حقیقی آزادی دلائی جا سکتی ہے، جس کیلئے آج خاص طور پر نوجوان طلبہ کو سائنسی بنیادوں پر منظم ہو کر اس نظام کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔
خالد مندوخیل کے بعد ذوالفقار علی بھٹو لاء کالج میمن کوٹ ملیر، لمز، مہران یونیورسٹی جامشورو، ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام اور بینظیر بھٹو یونیورسٹی نواب شاہ سے آئے ہوئے طلبہ نے بھی طلبہ سے خطاب کیے۔
اختتام پر پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی چیئرمین عمر ریاض نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمران طبقہ طلبہ یونین کو اس لیے بحال نہیں کر رہا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ محنت کشوں کے بچے یونین کے ذریعے ایک سیاسی عمل سے گزرتے ہوئے نا صرف اپنے مسائل کے خلاف آواز بلند کریں گے بلکہ مٹھی بھر حکمران طبقے کے طلبہ و مزدور دشمن پالیسیوں کو بھی چیلنج کرتے ہوئے اقتدار پر سوال ٹھانا شروع کر دیں گے، جسکی وجہ سے حکمرانوں کی حکمرانی جاری نہیں رہ سکے گی۔ مزیدان کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین، طلبہ کی ضرورت ہے نہ کہ حکمرانوں کی، کیونکہ ان (حکمرانوں) کے بچے جہاں پڑھتے ہیں وہاں یونین موجود ہوتی ہے اس لیے وہ سیاسی عمل سے گزر کر ملک پر حکمرانی کرنے آتے ہیں۔ جبکہ محنت کشوں کے بچے اس حق سے محروم ہیں اس لیے یونین مانگنے سے نہیں بلکہ طلبہ کو منظم کرتے ہوئے ایک ملک گیر سطح کی تحریک کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے مزید اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں کمپئین کے دوران انتظامیہ کے جن سہولتکاروں نے ہمارے ساتھیوں کو دھمکیاں دی ہیں وہ یہ بات سمجھ لیں کہ اگر اس مارچ میں شامل کسی بھی ساتھی کو کچھ بھی ہوا تو پی وائے اے ملک بھر میں اسکا جواب دے گی۔ آخر میں انہوں نے شرکاء کو یہ بتایا کہ ہم ملک بھر میں طلبہ یونین اور فیسوں کے خاتمے کی تحریک کو منظم کر رہے ہیں اور اس کے حصول تک جہدوجہد جاری رکھیں گے۔ آج کا یہ مارچ طلبہ تحریک میں ایک اہم باب کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جو تاریخ کے سنہری الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔