|پروگریسو یوتھ الائنس|
پروگریسو یوتھ الائنس کوئٹہ میں آن لائن کلاسز اور انٹرنیٹ کی عدم فراہمی کے خلاف ہونے والے احتجاج پر پولیس تشدد اور طلبہ کی گرفتاریوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے گرفتار طلبہ کو فی الفور رہا کیا جائے۔
حکمران طبقہ آن لائن کلاسز کی سہولیات فراہم کرنے کی بجائے جبر پر اتر آیا ہے۔ بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسز کے اجراء نے غریب اور محنت کش طبقے کے طلبہ کے لیے تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے اور تعلیم کو محنت کشوں کے بچوں کی پہنچ سے مزید دور کردیاہے۔
جہاں ایک طرف یہ گرفتاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں کے حکمران طبقات اور ریاستی اشرافیہ محنت کشوں کے بچوں سے تعلیم کا بنیادی حق چھین کر انہیں جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ وہیں کوئٹہ میں ہونے والے اس پرامن احتجاج کے خلاف ریاستی جبر درحقیقت ریاست کی جانب سے طلبہ کو تقسیم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ماضی میں بھی ریاست کی جانب سے ایسی کئی کوششیں کی جا چکی ہیں جس میں پنجاب یونیورسٹی میں پشتون کلچر ڈے پر ریاست کو پالتو غنڈوں اسلامی جمعیت طلبہ کا حملہ اس کی ایک مثال ہے۔ ایسے کئی واقعات کی مثالیں موجود ہیں جب ریاست کی جانب سے طلبہ کو قومی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ تعلیم دشمن حکمران وبا کی انتہا پر یونیورسٹیاں کھولنے کی طرف جا رہے ہیں جو کہ درحقیقت طلبہ کے قتل عام کے مترادف ہے۔ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے باعث مالی مشکلات کا شکار سرکاری یونیورسٹیوں اور نجی یونیورسٹی مالکان کے ایما پر یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے جس کی بھرپور مخالفت کی جانی چاہیے۔
پروگریسو یوتھ الائنس کا مطالبہ ہے کہ کرونا وباء کے خاتمے تک آن لائن کلاسز کو جاری رکھنے کے لیے تمام طلبہ کو مفت انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔ بلوچستان، سابقہ فاٹا، گلگت بلتستان اور کشمیر سمیت تمام علاقوں میں مفت انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور فیسوں کی وصولی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ تمام نجی یونیوسٹیوں کو ریاستی تحویل میں لیا جائے اور مفت تعلیم فراہم کء جائے۔ طلبہ یونین فوری طور پر بحال کی جائیں۔