|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر |
چند روز قبل جامعہ میرپور میں طلبہ نے کرونا وباء کی نئی لہر کے خطرے کی پیش نظر یونیورسٹی انتظامیہ سے ایس او پییز کے مطابق کلاسسز اور پیپرز لینے کا مطالبہ کیا۔ مگر انتظامیہ نے طلبہ کو صاف انکار کر دیا کہ جس طرح کلاسسز ہو رہی ہیں ویسے ہی ہوں گی۔ جس کے بعد طلبہ نے اپنے جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی گیٹ بند کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اور ٹھیک دو دن کے بعد ضلع بھر میں کرونا کے کیسز بڑھنے کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ نے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا حکم جاری کیا۔ اسی دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے تادیبی کارروائی کرتے ہوئے 16 طلبہ کو ایکسپیل کر دیا اور جواز یہ فراہم کیا گیا کہ طلبہ پڑھنا نہیں چاہتے اور یونیورسٹی کا ماحول خراب کر رہے ہیں۔
لیکن طلبہ کے احتجاج کے دو دن بعد ہی ضلعی انتظامیہ کا کوروناء کی صورتِ حال کے پیشِ نظر تعلیمی ادارے بند کر نا یہ بات ظاہر کرتا ہے طلبہ کا مطالبہ بالکل جائز تھا۔ یونیورسٹی کو بند کروانا طلبہ کا مطالبہ نہیں تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کے مفاد میں کوئی فیصلہ لیتی مگر اس کے برعکس انتہائی ڈھٹائی سے طلبہ کو دبانے کے لیے انہیں یونیورسٹی سے ہی ایکسپل کر دیا گیا۔ جن طلبہ کو ایکسپیل کیا گیا وہ بار بار یونیورسٹی انتظامیہ کے اس عمل کی وضاحت مانگتے رہے۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کی بات پر کان نہ دھرے۔ اور اسی دوران سیکورٹی گارڈز کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے ایکسپیل سٹوڈنٹس کی یونیورسٹی گیٹ سے اندر آنے کی اجازت بھی بند کر دی۔ جس کے بعد ان طلبہ نے یونیورسٹی اوپن ہونے پہ یونیورسٹی گیٹ کے سامنے پرامن دھرنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یونیورسٹی کو معمول کے مطابق کھولا جانا تھا۔ جو طلبہ گھروں کو گئے تھے شام کو ہی ہاسٹل پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ لیکن کچھ دیر بعد خبر ملی کہ یونیورسٹی کا گیٹ مکمل اکھاڑ دیا گیا ہے اور پولیس کی بھاری نفری یونیورسٹی کے اندر اور باہر تعینات کر دی گئی ہے، تاکہ طلبہ کسی قسم کا احتجاج نہ کر سکیں۔ اس بات پر طلبہ نے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو یونیورسٹی کے احاطے سے باہر نکالا دیا۔ لیکن تاحال یونیورسٹی کی طرف سے کسی قسم کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا کہ پولیس کو کیوں تعینات کیا گیا تھا۔
درحقیقت تعلیمی اداروں میں جان بوجھ کر اس قسم کا ماحول بنایا جاتا ہے تاکہ طلبہ کو ہمیشہ دبا کر رکھا جائے اور اپنے بنیادی حقوق پہ آواز نہ اٹھانے دی جائے۔ سیکورٹی اور دیگر بہانوں کے ذریعے طلبہ کو ذہنی طور پرہراساں کیا جا سکے۔ پاکستان کے ہر شہر میں تمام کالجز اور یونیوسٹیاں چھاؤنی کے مناظر پیش کر تی ہیں۔ جہاں طلبہ کو مسلسل ہراساں کیا جاتاہے۔
طلبہ کی جدوجہد اور یکجہتی کی بنیاد پر طلبہ نے اگلے دو دن یونیورسٹی کا گیٹ بند کر کے یونیورسٹی گیٹ کے باہر اور اندر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جس کے نتیجے میں 15 فروری کو تمام ایکسپیل طلبہ کو بحال کر دیا گیا ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کو اس شاندار جیت پر مبارک باد پیش کرتا ہے اور طلبہ کی جرات کوسلا م پیش کرتا ہے کہ انہوں نے آپس میں جڑکر، جدوجہد کا راستہ اپناتے ہوئے اپنے مطالبات کو منوایا۔ یہ سب طلبہ کے اتحاد اور جدوجہد کی وجہ سے ممکن ہوا ہے یہ طلبہ کی جزوی کامیابی ہے مگر جب تک طلبہ کے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہوگا جس کے ذریعے طلبہ فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لیں سکیں، تب تک طلبہ حقوق پر آئے روز حملے کیے جاتے رہیں گے۔ طلبہ کو اپنی اس جدوجہد کو ایک ادارے کی حدود سے نکل کر ملک کے ہر ادارے کے طلبہ کے ساتھ اتحاد بنا کر لڑنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو اکٹھے ہو کر نہ صرف اپنے چھوٹے چھوٹے مطالبات منوانے ہیں بلکہ طلبہ یونین کی بحالی اور مفت تعلیم کے حصول کی لڑائی بھی لڑنی ہے۔ پروگریسویوتھ الائنس آغاز سے طلبہ کے شانہ بشانہ ان کی ہر جدوجہد میں رہا ہے اور آگے بھی جدوجہد کو منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
ایک کا دکھ۔۔۔سب کادکھ!
طلبہ اتحاد زندہ باد!